• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

تین مرتبہ ’’میں تمہیں آزاد کرتا ہوں‘‘ کہنے کا حکم

استفتاء

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ہماری شادی کو تقریبا ایک سال آٹھ ماہ ہو گئے ہیں، گزشتہ دسمبر یا جنوری کا واقعہ ہے کہ  طلاق کے موضوع پر ہماری میاں بیوی کی بات چل رہی تھی ہنسی مذاق کر رہے تھے تو میں نے اپنی  بیوی سے کہا کہ میں دے دوں؟ تو بیوی نے کہا دے دو تو میں نے مذاق میں تین بار  کہا کہ ’’میں تمہیں آزاد کرتا ہوں، میں تمہیں آزاد کرتا ہوں ، میں تمہیں آزاد کرتا ہوں ‘‘ طلاق کی نیت نہیں تھی اور طلاق کا لفظ بھی استعمال نہیں کیا تھا، ہم دونوں میاں بیوی کو علم نہیں تھا کہ ایسے الفاظ استعمال نہیں کرتے، نا سمجھی میں یہ الفاظ بول دیے، پھر  اس کے بعد ہم ہنسی خوشی زندگی گزارتے رہے اور حمل بھی ہو گیا، حمل ہونے سے پہلے ایک یا دو ماہواریاں آئی تھیں، حمل کے پانچویں ماہ ٹی وی پر سنا کہ مذاق میں بھی طلاق ہو جاتی ہے، (1) مذکورہ صورت میں طلاق ہو گئی ہے یا نہیں ہوئی؟

(2) اگر طلاق ہو گئی ہے تو کیا ہمارے بچے کا نسب ثابت ہے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

(1)مذکورہ صورت میں   تینوں طلاقیں واقع ہو گئی ہیں، جن کی وجہ سے بیوی شوہر پر حرام ہو گئی ہے  لہذا  اب نہ رجوع ہو سکتا ہے اور نہ صلح کی گنجائش ہے۔

(2) آپ کے بچے کا نسب ثابت ہے۔

توجیہ: مذکورہ صورت میں  شوہر کے الفاظ کہ ’’میں تمہیں آزاد کرتا ہوں، میں تمہیں آزاد کرتا ہوں ، میں تمہیں آزاد کرتا ہوں ‘‘ اصل کے اعتبار سے اگرچہ کنایہ ہیں لیکن کثرت استعمال کی وجہ سے صریح کے حکم میں ہیں اور ان سے رجعی طلاق واقع ہوتی ہے لہذا ’’الصریح یلحق الصریح‘‘ کے تحت تینوں طلاقیں واقع ہو گئی ہیں  ۔

تنویر الابصار (427/5) میں ہے:

ويقع طلاق كل زوج بالغ عاقل ولو عبدا أو مكرها أو هازلا.

 

فتاوی شامی(4/519) میں ہے:

فإذا قال ” رهاكردم ” أي سرحتك يقع به الرجعي مع أن أصله كناية أيضا، وما ذاك إلا لأنه غلب في عرف الفرس استعماله في الطلاق وقد مر أن الصريح ما لم يستعمل إلا في الطلاق من أي لغة كان.

درمختار (4/528) میں ہے:

(الصريح يلحق الصريح و) يلحق (البائن) بشرط العدة.

بدائع الصنائع (3/295) میں ہے:

وأما الطلقات الثلاث فحكمها الأصلي هو زوال الملك، وزوال حل المحلية أيضا حتى لا يجوز له نكاحها قبل التزوج بزوج آخر؛ لقوله – عز وجل – {فإن طلقها فلا تحل له من بعد حتى تنكح زوجا غيره} [البقرة: ٢٣٠] .

ردالمحتار مع در مختار(6/33)میں ہے:

(و) الواطئ (إن ادعى النسب يثبت في الأولى) شبهة المحل (لا في الثانية) أي شبهة الفعل لتمحضه زنا (إلا في المطلقة ثلاثا بشرطه) بأن تلد لأقل من سنتين لا لأكثر إلا بدعوة كما مر في بابه.

(قوله بأن تلد إلخ) بدل من قوله بشرطه.قال ح: ويحمل على وطء سابق على الطلاق كما تقدم في باب ثبوت النسب. لا نقول إنه انعقد من هذا الوطء الحرام حيث أمكن حمله على الحلال (قوله كما مر في بابه) من أنه لا يثبت النسب في المطلقة ثلاثا بعد سنتين إلا بدعوة ح. قلت: وتحصل من هذا أنه إذا ادعى الولد يثبت النسب سواء ولدت لأقل من سنتين أو لأكثر وإن لزم الوطء في العدة لوجود شبهة العقد، وأما بدون الدعوى فلا يثبت إلا إذا ولدت لأقل من سنتين حملا على أنه بوطء سابق على الطلاق.

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved