• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

تین مرتبہ طلاق اوراکٹھے رہنے کاحکم

استفتاء

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

میں  سید عبدالخالق ولد سید محمد علی شاہ سکنہ مکان نمبر 645گلی نمبر17گلستان کالونی کارہائشی ہوں  میرا عرصہ دو ماہ قبل سے اپنی زوجہ نسیم خالق سے گھریلو ناچاکی چل رہی ہے جس کی وجہ سے وہ ناراض ہو کر اپنی ہمشیرہ کے گھر چلی گئی تھی جہاں  میری زوجہ سے فون پر بحث ہوئی اور میں  نے اپنی زوجہ کو فون پر طلاق کا بولا(یعنی چودہ اکتوبر کو یوں  کہاں  ’’میں  نے آپ کو طلاق دی ‘‘)ایک بار جس کے بعد زوجہ نے فون بند کردیا لیکن مفاہمت سے زوجہ گھر واپس آگئی لہذا کشیدگی برقرار رہی آج کشیدگی زیادہ ہونے کی وجہ سے میں  نے اپنی زوجہ کو اپنی بیٹی اور دوسال کے بیٹے کی موجودگی میں  تین بار طلاق دی (الفاظ یہ تھے’’میں  نے آپ کو طلاق دی ،طلاق دی ،طلاق‘‘یعنی 22نومبر کوپہلی مرتبہ جب فون پر طلاق دی اس کے کچھ دن بعد پھر جھگڑا ہوا تو انہوں  نے یہ بھی کہا کہ تم میری طرف سے فارغ ہو(لڑکی کے بیان کے مطابق))جس کے بعد زوجہ واپس جانا چاہتی ہے میری جوان بچی ہے لہذا اس مسئلہ کا حل بتائیں  کہ یہ طلاق تو نہیں  ہوئی؟اگر ہوئی ہے تو زوجہ میرے دیئے ہوئے گھر میں  رہ سکتی ہے؟جس کاتمام خرچہ میں  کرتا ہوں  کیا ایسا ممکن ہے کہ ہم دونوں  علیحدہ علیحدہ رہیں  اور ایک ہی گھرمیں  رہ لیں بچوں  کی وجہ سے؟

وضاحت مطلوب ہے:

(۱)میاں  بیوی کی عمریں  کیا ہیں ؟(۲)مکان کتنا بڑا ہے؟(۳)کیا یہ ممکن ہے کہ دونوں  ایک مکان میں رہنے کے باوجود آپس میں  کسی قسم کا تعلق نہ رکھیں ؟

جواب وضاحت:

(۱)میاں  43سال کا ہے اور بیوی  35سال کی ہے۔(۲)پانچ مرلے کاہے۔(۳)مکان پانچ مرلے کا ہے اور دوکمرے ہیں  اور چھوٹا بچہ پونے دوسال کا ہے وہ اپنے پاپا کے بغیر نہیں  رہتا ہے ۔آمنا سامنا تو ہو جائے گاآگے خود دیکھ لیں  کہ اتنے سے گھر میں  کیسے ہم رہ سکیں  گے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں  تینوں  طلاقیں  واقع ہوچکی ہیں  جن کی وجہ سے نکاح مکمل طور سے ختم ہو گیا ہے اوربیوی شوہر پر حرام ہو گئی۔لہذا  ہے اب نہ صلح ہو سکتی ہے اور نہ رجوع کی گنجائش ہے۔زوجہ (بیوی)آپ کے دئیے ہوئے گھر میں  رہ سکتی ہے بشرطیکہ میاں  بیوی دونوں  اجنبیوں  کی طرح رہیں  ،میاں  بیوی کی طرح رہنا جائز نہیں ۔میاں  بیوی میں  سے اگر کسی ایک کا بھی غالب گمان یہ ہے کہ مذکورہ صورت میں  ہم اجنبیوں  کی طرح نہیں رہ سکیں  گے تو پھر عدت کے بعد زوجہ (بیوی)کا آپ کے مکان میں  رہنا جائز نہ ہو گا۔

الدرالمختار(537/3)

( ولا بد من سترة بينهما في البائن ) لئلا يختلي بالأجنبية ومفاده إن الحائل يمنع الخلوة المحرمة ( وإن ضاق المنزل عليهما أو کان الزوج فاسقا فخروجه أولي ) لأن مکثها واجب لا مکثه ومفاده وجوب الحکم به  ذکره الکمال ( وحسن أن يجعل القاضي بينهما امرأة ) ثقة

ترزق من بيت المال بحر عن تلخيص الجامع ( قادرة علي الحيلولة بينهما ) وفي المجتبي الأفضل الحيلولة بستر ولو فاسقا بامرأته  قال ولهما أن يسکنا بعد الثلاث في بيت واحد إذا لم يلتقيا التقاء الأزواج ولم يکن فيه خوف فتنة انتهي

 وسئل شيخ الإسلام عن زوجين افترقا ولکل منهما ستون سنة وبينهما أولاد تتعذر عليهما مفارقتهما فيسکنان في بيتهم ولا يجتمعان في فراش ولا يلتقيان التقاء الأزواج هل لهما ذلک قال نعم وأقره المصنف

وفي الشامية(538/3)

قوله ( وسئل شيخ الإسلام ) حيث أطلقوه ينصرف إلي بکر المشهور بخواهر زاده وکأنه أراد بنقل هذا تخصيص ما نقله عن المجتبي بما إذا کانت السکني معها لحاجة کوجود أولاد يخشي ضياعهم لو سکنوا معه أو معها أو کونهما کبيرين لا يجدهو من يعوله ولا هي من يشتري لها أو نحو ذلک والظاهر أن التقييد بکون سنهما ستين سنة وبوجود الأولاد مبني علي کونه کان کذلک في حادثة السؤال کما أفاده ط

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved