• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

تین طلاق کے الفاظ کا حکم اورتاکید کی نیت

استفتاء

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

سنبل عثمان زوجہ سید عثمان علی شاہ( مجھے)ایک مسئلے میں آپ سب کی رہنمائی چاہیے ۔میرے شوہر نے جمعہ کے دن مجھے کہا کہ اپنی امی کو بلا لو میں تمہیں چھوڑ رہا ہوں(اور میں تمہیں چھوڑنے کا ارادہ رکھتا ہوں یہ بات وہ پہلے بھی لڑائیوں میں کہہ چکے ہیں لیکن ہفتے کے دن انہوں نے مجھے پھر امی کو بلانے کا کہا اور ساتھ کہا کہ میں تمہیں طلاق دینا چاہتا ہوں ۔ تومیں نے کہا کہ امی کا انتظار کیا کرنا آپ نے جو کہنا ہے کہدیں تو انہوں نے مجھے کہا کہ’’ میں خدا کو حاضر ناظر جان کر تمہیں پہلی طلاق دیتا ہوں ،طلاق دیتا ہوں،طلاق دیتا ہوں‘‘۔

اب میں کشمکش میں ہوں کہ مجھے طلاق تاکید ی ہوئی یا تینوں ہو گئیں۔آپ حضرات میری رہنمائی فرمائیں کہ میرے لیے شرعا کیا حکم ہے ؟میرے خاوند کا کہنا ہے کہ میری نیت صرف ایک طلاق کی تھی اور میں اپنی بیوی کو ڈرارہا تھا۔

بیوی کابیان حلفی

میں یہ تحر یر اللہ کو حاضروناظر جان کرحلفیہ اقرار کرکے لکھ رہی ہوں:

جنا ب مفتی صاحب میں سنبل عثمان زوجہ سید عثمان علی شاہ ایک مسئلے میں آپ کی رہنمائی چاہتی ہوں ۔میرے شوہر نے جمعہ کے روز مجھ سے اپنے امی کو کہلویا کہ ’’امی کو بلالو میں تمہیں چھوڑ رہا ہوں ‘‘اور ایسا وہ پہلے بھی بہت دفعہ کہہ چکے ہیں لیکن وہ دل میں ارادہ نہیں رکھتے تھے چھوڑنے کا کیونکہ ہر دفعہ لڑائی میں یہ بات کہہ کر صلح ہو جاتی تھی اور وہ بعد میں یہی کہتے تھے کہ میں تمہیں کبھی چھوڑ ونگا نہیںلیکن پھر اگلی لڑائی میں یہی معاملہ ہوتا تھا میں نے بہت دفعہ انہیں کہا بھی کہ اگرچھوڑنا ہے تو چھوڑیں لیکن پھروہ یہی کہتے کہ میں تم اور بچوں کے بغیر نہیں رہ سکتا اور ہماری صلح ہو جاتی ۔(واللہ تعالی اعلم)

لیکن ہم دونوں کی حرکتیں ایسی نہیں کہ جو ایک عزت دار میاں بیوی کی ہوتی ہیں نہ ہم لڑائی میں ایک دوسرے کی عزت کرتے ہیں اور بہت الزام تراشی بھی کرتے  ہیں اور ایک دوسرے سے آڑمیں بھی رہتے ہیں۔اور حقوق پورے کرنے سے بھی خالی ہیں۔ ہماری شادی کو پندرہ سال ہو گئے ،میرے چھ بچے ہیںلیکن پھر بھی ہمارے درمیان رشتہ پختہ ہونے کے بجائے دن بہ دن کمزور ہوتا جارہا ہے کہ میں نے تو کئی دفعہ دل سے ارادہ کیا ہے خلع لینے کا اور سب سے بڑی بات کہ ہمارے درمیان ایمان داری وفاداری نہیں ہے خیر پھر جمعہ کے بعد ہفتے کے دن شام پانچ بجے وہ گھر آئے اور کہاکہ اپنی امی کو بلائو ’’میں تمہیں طلاق دینے لگا ہوں ‘‘تو میں نے کہا کہ امی کو کیا بلانا جو کہنا ہے کہہ دیں تو انہوں نے کہا’’میں تمہیں اللہ کو حاضر ناظر جان کر پہلی طلاق دیتا ہوں ،طلاق دیتا ہوں ،طلاق دیتا ہوں‘‘  پھر میں نے اس کے فورا بعد یہ بات دارالمفتوح کی باجی جان ساجدہ عمر فاروق کو بتائی اور وہ میرے پاس گھر آئی اورپھر عثمان صاحب کی امی کو بھی بلایا اور انہوں نے دونوں کے سامنے بھی یہی لفظ دہرائے لیکن ساتھ ساتھ وہ یہ بھی کہتے رہے ،میں نے ہوش وحواس میں پہلی ہی دی ہے میں نے صرف اس کو ڈرانا تھا کہ یہ میری مرضی کے مطابق چلنا شروع ہو جائے کیونکہ انہیں مجھ پر شک ہے اور وہ کہتے ہیں کہ گھر سے باہر بالکل نہ جایا کرو جب کہ میں جب بھی جاتی ہوں اپنے چودہ سال کے بیٹے یا باقی بچوں کے ساتھ ہی جاتی ہوں اور کبھی اللہ گواہ ہے کہ ایسا کچھ ہوا بھی نہیں کہ  جس پر وہ مجھ پر شک کریں کہ کہیں انہوں نے مجھے دیکھا ہو لیکن وہ خود جن عورتوں میں تعلق میں ہے وہ عورتیں شریف نہیں لیکن مجھے ان باتوں سے اب کوئی فرق کافی سالوں سے نہیں پڑتا میں تو بچوں کی خاطر کر رہی تھی کیونکہ ان کے باقی گھر والوں کابھی رویہ حقیرانہ ہے ذلت والا میرے ساتھ اور انہوں نے ہمیشہ ان کا ساتھ دیا ہے ۔خیر طلاق دینے والے روز بھی میں بیٹے کے ساتھ باہر گئی تھی مارکیٹ بچوں کی چیزیں لینے تو وہ دکان سے خاص طور پر یہ کام کرنے آئے ۔لیکن اب وہ الفاظوں سے بھی مکرگئے ہیں اور اس دن سے اپنی بات پر پکے ہیں کہ میں نے تم کو ایک بار دی ہے دوسری تک اگر تم نے رجوع نہیں کیا تو تمہیں پندرہ جنوری کو دوسری طلاق ہو جائیگی ۔بیچ میں دو دفع ہمارے درمیان میاں بیوی والا تعلق بھی ہوتا ہے جس پر میں انہیں یہی کہتی کہ زناکررہے ہیں کیونکہ میری تحریر کے مطابق طلاق ہو چکی تھی اور میاں بیوی والے تعلق میں میری رضامندی بھی نہیں تھی یہ سب ہونے کے بعد بھی میرے دل کی کیفیت مجرم کی سی ہے کہ میں گناہ ہی کررہی ہوں ۔اب پرسوں انہیں نے میری کیفیت دیکھ کر اپنا حلفیہ بیان لکھوایا ہے جو کہ میرے بیان سے بالکل نہیں ملتا  ۔لیکن میرے بیان کے مطابق اس کے دو گواہ بھی نہیں جن کو انہوں نے اپنے منہ سے خود وہی الفاظ بتائے جو میں نے تحریر کرے ۔اب میں مسلسل کشمکش میں ہوں ۔ایک دل چھوڑنے پر راضی ہے اور اپنی عزت نفس کو اور مجروح ہونے سے بچانا ہے اور دوسری باقی حالات سوچتی ہوں تو صلح کے بارے میں ہوتی ہوں لیکن اپنی زندگی حرام بھی نہیں گزارنا چاہتی ہوں ،صحیح اسلام چاہتی ہوں اگر میں یہاں سے جاتی ہوں اپنے ماں بات کے ساتھ تو اس میں میری اور بچوں کی زیادہ بہتری لگتی ہے اللہ کے حکم سے۔اور اگر فیصلہ طلاق نہ ہونے کا آتا ہے تو پھرعثمان صاحب کو میری کچھ جائز شرطیںماننی ہو نگی۔اس میں آپ سب کا مکمل تعاون چاہیے۔

شوہر کا بیان حلفی

میں سید عثمان علی شاہ خدا کو حاضرناظر جان کر اپنا اقراری بیان دیتا ہوں میں نے اپنی زوجہ سنبل عثمان کو پورے ہوش وحواس میں قرآن وسنت کو مدنظر رکھ کر اقراری بیان دیتا ہوں اللہ کو حاضر وناظر جان کر میں نے اپنی بیوی کو طلاق دی۔ طلاق کے الفاظ کچھ یوں تھے کہ ’’میں خدا کو حاضر وناظر جان کر تمہیں پہلی طلاق دیتا ہوں ،طلاق بہن چود طلاق، یہی تم چاہتی تھی۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

۱۔ مذکورہ صورت میں بیوی کے بیان کے مطابق خاوند کے الفاظ یہ ہیں’’میں تمہیں اللہ کو حاضر وناظر جان کر پہلی طلاق دیتا ہوں ،طلاق دیتا ہوں ،طلاق دیتا ہوں ‘‘جبکہ خاوند کے بیان کے مطابق اس کے الفاظ یہ ہیں’’میں خدا کو حاضروناظر جان کر تمیںپہلی طلاق دیتا ہوں،طلاق ،بہن چود طلاق ،یہی تم چاہتی تھی‘‘

۲۔ غرض میاں بیوی کے دونوں کے بیان میں لفظ طلاق تین مرتبہ مذکور ہے ۔لفظ طلاق جب تین مرتبہ بولا جائے  تو اس سے تینوں طلاقیں واقع ہو جاتی ہیں خواہ شوہر کی تین طلاق کی نیت ہو یا صرف ایک کی نیت ہو بالخصوص جب عورت نے تین دفعہ طلاق دینے کے الفاظ از خود سنے ہوں تو وہ تین طلاق سمجھنے کی پابند ہے ۔لہذا مذکورہ صورت میں تین طلاقیں واقع ہو گئی ہیں جن کی وجہ سے بیوی اپنے شوہر پر حرام ہو گئی ہے ان نہ صلح ہو سکتی ہے اور نہ رجوع  کی گنجائش ہے ۔

شامي (510/4):

کررلفظ الطلاق وقع الکل وان نوي التاکيد دين قوله (کررلفظ الطلاق)حاشية ابن عابدين (3/ 293)

 بأن قال للمدخولة أنت طالق أنت طالق أو قد طلقتک قد طلقتک أو أنت طالق قد طلقتک أو أنت طالق وأنت طالق وإذا قال أنت طالق ثم قيل له ما قلت فقال قد طلقتها أو قلت هي طالق فهي طالق واحدة لأنه جواب کذا في کافي الحاکم قوله ( وإن نوي التأکيد دين ) أي ووقع الکل قضاء وکذا إذا اطلق أشباه أي بأن لم ينو استئنافا ولا تأکيدا لأن الأصل عدم التأکيد

وفي البحر277/7

والمرأة کالقاضي اذا سمعته او اخبر ها عدل لا يحل لها تمکينه

وفي امداد الحکام561/3

قال في عدة ارباب الفتوي ومالا يصدق فيه المرأة عندالقاضي لايفتي فيه کما لايقضي فيه وقال في شرح نظم النقاية وکما لايدينه القاضي کذالک اذا سمعته منه المرأة او شهد به عندها عدول لايسعها ان تدينه لانها کالقاضي لاتعرف منه الاالظاهر

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved