• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

تین طلاقیں دے کراکٹھے رہنے کا حکم اور دوبارہ نکاح کرنے کاحکم

استفتاء

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع درج مسئلہ کے بارے میں کہ ***** نے اپنی زوجہ ***** کو اکٹھی تین طلاقیں دیں اس کے بعد زید غیر مقلدین اور علامہ ابن تیمیہ ؒ وغیرہ کے قول (تین طلاق اکٹھی دینے پر ایک ہی واقع ہوتی ہے)کا سہارا لیتے ہوئے یہ سمجھ کر کہ یہ طلاق مغلظہ نہیں ہے اپنی زوجہ ***** سے ملتا رہا (یہ بھی یاد رہے کہ ***** خود غیر مقلد نہیں ہے۔)اس کے ایک عرصہ بعد ***** کو چند علمائے احناف ودیگر احباب کے کہنے سننے سے احساس ہوا اور اس کے ضمیر نے ملامت کیا کہ چونکہ عند الجمہور یہ طلاق مغلظہ ہے تو ***** نے طلاق کے چھ ماہ بعد بغرض حلالہ شرعی ***** کا ***** سے نکاح کرادیا اور یہ نکاح باقاعدہ شرعی قواعد کے مطابق حق مہر کے ساتھ اور گواہوں کی موجودگی میں ہوا اس کے چنددن بعد*****نے اس زوجہ ثانی سے خلع کرلیا۔(یعنی شوہر کی رضامندی سے بغیر عدالت کے آپس میں خلع کرلیا)

ضروری نوٹ:          یہ بھی وضاحت ضروری ہے کہ طلاق مغلظہ اور نکاح ثانی کے درمیان کل چھ ماہ کا وقفہ ہے اس پر چھ ماہ کی مدت میں پہلے پانچ ماہ تو وہ ***** سے ملتا رہا ہے اور آخری ایک ماہ وہ ہے جس میں ***** نے کلیۃ ***** سے ملنا چھوڑ دیا تھا ۔اس  مدت ترک کے صحیح ایک ماہ بعد (جس میں ***** کو ایک حیض اور طہر کامل واقع ہو چکا تھا )بکر سے بغرض حلالہ شرعی نکاح کیا گیا ۔

اب سوال یہ ہے کہ مذکورہ تفصیل کے مطابق ***** کا کیا ہوا حلالہ شریعت کی رو سے حلالہ شرعی بن گیا ہے یا نہیں ؟اور اس طرح ***** اپنے سابق میاں کے لیے حلال ہوگئی ہے یا نہیں ؟یعنی ***** کازید کے ساتھ نکاح جائز ہے یا نہیں؟

وضاحت مطلوب ہے :

(۱)شوہر کو اپنے طلاق دینے کے کتنے عرصہ بعد یہ علم ہوا کہ تین طلاقوں سے اس کی بیوی اس پر حرام ہو گئی ہے ؟(۲)حرمت کا علم ہونے سے پہلے آخری مرتبہ صحبت کرنے کے بعد نکاح ثانی سے پہلے تین حیض گذر ے تھے یا نہیں ؟

جواب وضاحت :

۱۔۲           طلاق کے تقریبا دو ماہ بعد احساس ہوگیا کہ ہمارا اکٹھے رہنا درست نہیں ۔گویا مئی کے آخری عشر ے میں ہوا اور نکاح اکتوبر میں ہوا اس دوران تین ماہواریاں گذرچکی تھیں ۔عورت کی عادت سات سے اٹھارہ کی ہے یعنی اٹھارہ طہر اور سات حیض پچیس دن کل

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں چونکہ ***** کا بکرکے ساتھ نکاح ***** کی طرف سے دی گئی طلاق اور وطی بالشبہہ کی عدت گذرنے کے بعد ہوا تھا اس لیے مذکورہ نکاح درست تھا ۔لہذااگر*****نے حقوق زوجیت ادا کرنے کے بعد ***** کے ساتھ خلع کیا ہے تو خلع کے بعد عدت (تین ماہواریاں)گذارنے کے بعد*****پہلے خاوند سے نکاح کرسکتی ہے ۔البتہ پہلی تین طلاقو ں کے بعد اکٹھے رہناجائز نہیں تھا اس پر توبہ واستغفار کرنا ضروری ہے ۔

توجیہ:

تین طلاقوں کے بعد اکٹھے رہنا ناجائز اور حرام تھا ۔دوماہ تک خاوند غلط فہمی میں مبتلا رہا اور غیر مقلدین کے فتوے کی بنیاد پر تعلقات کو جائز سمجھتا رہا اور تعلقات قائم کیے رکھے ۔یہ تعلقات وطی بالشبھہ کے حکم میں ہیں جن کی عدت ضروری ہوتی ہے ۔مئی کے آخر میں خاوند کو تعلقات کے ناجائز ہونے کا علم اور احساس ہوا یہ تعلقات وطی بالشبہہ کی بجائے زنا کے حکم میں ہیں جن کی عدت نہیں ہوتی ۔ وطی بالشبہ کی عدت مئی کے آخر سے شروع ہو کر اکتوبر سے پہلے ختم ہوگئی ۔اور تین طلاقوں کی عدت اس سے بھی پہلے ختم ہو گئی ۔چنانچہ دوسرا نکاح دونوں عدتوں کے گذرنے کے بعد ہوا ہے ۔اس لیے وہ صحیح ہوا لہذا حقوق زوجیت ادا کرنے کے بعد خلع ہوا ہو تو عدت گذارنے کے بعد عورت پہلے خاوند کے لیے حلال ہو جائے گی ۔

حاشية ابن عابدين (3/ 518)

قوله ( وإذا وطئت المعتدة ) أي من طلاق أو غيره  در منتقي۔ وکذا المنکوحة إذا وطئت بشبهة ثم طلقها زوجها کان عليها عدة أخري وتداخلتا کما في الفتح وغيره

 قوله ( بشبهة ) متعلق بقوله وطئت وذلک کالموطوء ة للزوج في العدة بعد الثلاث بنکاح وکذا بدونه إذا قال ظننت أنها تحل لي أو بعد ما أبانها بألفاظ الکناية وتمامه في الفتح ومفاده أنه لو وطئها بعد الثلاث في العدة بلا نکاح عالما بحرمتها لا تجب عدة أخري لأنه زنا۔

وايضا فيه 197/5

واما نکاح منکوحة الغير ومعتدته فالدخول فيه لايوجب العدة ان علم انها للغير لانه لم يقل ائمة بجوازه فلم ينعقد اصلا۔

وفي الدرالمختار276/4

ولما سيأتي في باب العدة من انها تجب بثلاث حيض کوامل في الموطوء ة بشبهة او نکاح فاسد في الموت والفرقة اي ان کانت تحيض والا فثلاثة اشهر او وضع الحمل فافهم۔

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved