• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

تین طلاقیں دی ہیں، کیا اب رجوع ہوسکتا ہے؟

استفتاء

میں *** ولد *** مکان  نمبر7کا رہائشی ہوں، میری شادی *** ولد *** سے 2019 کو طے پائی تھی تقریباً ایک سال پہلے میں نے گھریلو ناچاقی اور جھگڑے کی وجہ سے اپنی بیوی کو پریگننسی کی حالت میں ایک بار طلاق کے الفاظ زبانی  کہے تھے ، طلاق کے الفاظ یہ تھے کہ "میں تمہیں طلاق دیتا ہوں” اور کچھ دن بعد رجوع کرلیا تھا جناب میری بیوی ذہنی مریض ہے اور اس بات کا ہمیں شادی کے بعد پتہ چلا اس کی ذہنی کیفیت ایسی تھی کہ جب کبھی بھی گھریلو ناچاقی یا جھگڑا ہوتا تو وہ کبھی چھری لے کر اپنے آپ کو مارنے کی کوشش کرتی اور کبھی دیواروں میں  سرمارتی اور اپنے آپ کو تھپڑ مارتی اور گھر سے بھی نکل جاتی تھی میرے بار بار روکنے کے بعد بھی وہ یہ سب کرتی تھی جناب اب مؤرخہ23-02-06 کو میں نے اپنی بیوی کو اس کی ذہنی طبیعت کی وجہ سے مجبور ہوکر  ****** کو تین بار طلاق کے الفاظ کہے۔

جناب سے التماس ہے کہ قرآن وسنت کے مطابق مسئلہ کا حل بتایا جائے کہ کیا میں رجوع کرسکتا ہوں یا پھر طلاق ہوگئی ہے؟

تنقیح: میں نے اپنی بیوی کے سامنے تین دفعہ یہ کہا کہ”میں تجھے طلاق دیتا ہوں، میں تجھے طلاق دیتا ہوں، میں تجھے طلاق دیتا ہوں”

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں تینوں طلاقیں واقع ہوچکی ہیں جن کی وجہ سے بیوی شوہر پر حرام ہوچکی ہے لہٰذا اب نہ رجوع ہوسکتا ہے اور نہ صلح کی گنجائش ہے۔

توجیہ: مذکورہ صورت میں جب آپ نے ایک مرتبہ طلاق دے کر رجوع کرلیا تھا تو آپ کے پاس دو طلاقوں کا  اختیار باقی تھا چنانچہ جب آپ نے مؤرخہ 23-02-06 کو اپنی بیوی کو  طلاق کے صریح الفاظ میں تین دفعہ کہا کہ "میں تجھے طلاق دیتا ہوں” تو پہلے دو جملوں سے دوسری اور تیسری طلاق واقع ہوگئی اور تین طلاقیں مکمل ہوگئیں۔

نوٹ: آپ کی بیوی کی دماغی حالت اگرچہ خراب ہے لیکن طلاق واقع ہونے میں بیوی کی دماغی حالت کا اعتبار نہیں ہے کیونکہ طلاق دینے کا اختیار  مرد کو ہوتا ہے۔

شامی(4/418) میں ہے:

وأهله زوج عاقل بالغ مستيقظ

تنویر الأبصار مع درمختار(4/443)میں ہے:

‌(صريحه ‌ما ‌لم يستعمل إلا فيه) ولو بالفارسية (كطلقتك وأنت طالق ومطلقة)…… (ويقع بها) أي بهذه الألفاظ وما بمعناها من الصريح……. (واحدة رجعية وإن نوى خلافها) من البائن أو أكثر خلافا للشافعي (أو لم ينو شيئا).

درمختار مع رد المحتار(4/509)میں ہے:

   كرر لفظ الطلاق وقع الكل، وإن نوى التأكيد دين(قوله كرر لفظ الطلاق) بأن قال للمدخولة: أنت طالق أنت طالق أو قد طلقتك قد طلقتك أو أنت طالق قد طلقتك أو أنت طالق وأنت طالق.

فتاوی ہندیہ(2/411)میں ہے:

وإن كان الطلاق ثلاثا في الحرة وثنتين في الأمة لم تحل له حتى تنكح زوجا غيره نكاحا صحيحا ويدخل بها ثم يطلقها أو يموت عنها كذا في الهداية.

بدائع الصنائع (3/295) میں ہے:

وأما الطلقات الثلاث فحكمها الأصلي هو زوال الملك وزوال حل المحلية أيضا حتى لا يجوز له نكاحها قبل التزوج بزوج آخر لقوله عز وجل {فإن طلقها فلا تحل له من بعد حتى تنكح زوجا غيره}

بدائع الصنائع (3/ 283) میں ہے:

أما الطلاق الرجعي فالحكم الأصلي له هو نقصان العدد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم               

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved