• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

تین طلاقوں کا جھوٹا اقرار کرنے کا حکم

استفتاء

ایک شخص نے فون پر بات کرتے ہوئے اپنی بہن سے اپنی بیوی کے بارے میں کہا ’’میں نے اسے دیدی،  میں نے اسے دیدی‘‘ دو دفعہ الفاظ کنایہ کہے اور نیت طلاق کی تھی۔ بعد میں گھر والوں سے اور سب سے یہی کہا کہ میں نے اسے تین طلاق دیدیں۔ اب بیوی کے گھر والوں نے زبردستی لڑکی کو بھیجنا چاہا۔ تو انہوں نے مقامی مفتی صاحب سے مسئلہ پوچھا اور مفتی صاحب کو بتاتے ہوئے شوہر نے  یہی کہا کہ میں نے اسے تین طلاق دیدیں اور مفتی صاحب کو پہلے ’’دیدی‘‘ والے الفاظ کنایہ نہیں بتائے  تھے تو مفتی صاحب نے فرمایا تین طلاق ہوگئیں۔ لیکن لڑکی والے اس فتوے کو نہیں مانتے تھے تو انہوں نے دوبارہ مفتی صاحب کی طرف رجوع کیا اور جامعہ***گئے اور وہاں مفتی *** صاحب  سے فتوی طلب کیا اور اب مفتی صاحب کو اس نے اپنے الفاظ کنایہ بتائے اور ساتھ یہ کہا کہ میں اسکے بعد سب سے یہی کہتا رہا کہ میں نے اسے تین طلاق دیدیں۔ (اور جو پہلے مفتی صاحب نے فتوی دیاتھا کہ تین طلاق ہوگئیں یہ مفتی *** صاحب کو نہیں بتایا)

اب مفتی*** صاحب  نے فتوی دیا کہ جو کنایہ کے الفاظ دو دفعہ بولے ان سے دو طلاق ہوئیں۔ اور اس کے بعد جو لوگوں سے تین طلاق کا کہتا رہا تو وہ جھوٹ ہوا کیونکہ پہلی دفعہ الفاظ کنایہ بولے تھے تین طلاق کا لفظ نہیں بولا تھا تو تین طلاق والی بات جھوٹ ہوئی اور دوسرا مفتی صاحب نے فرمایا کہ الفاظ کنایہ سے طلاقِ بائن پڑ گئی اور بعد میں جتنی دفعہ بھی کہا وہ بس خبر دیتا رہا۔ لہٰذا مفتی صاحب نے فرمایا کہ تجدید نکاح کر لو۔

لیکن مفتی صاحب ان کو اس فتوے سے تشفی نہیں ہوئی کیونکہ ایک مفتی نے تین طلاق کا کہہ دیا اور دوسرے نے تجدیدِ نکاح کا کہہ دیا۔ لہٰذا اس مذکورہ بالا صورت کا تسلی بخش فتوی درکار ہے مہر کے ساتھ ثبوت کے طور پر پیش کیا جاسکے۔

تنقیح: تین دفعہ طلاق کا اقرار شوہر نے  ’’دیدی‘‘ کہنے کی بنیاد پر نہیں کیا تھا بلکہ رشتہ داروں کے سامنے ویسے ہی تین طلاقوں کا اقرار کیا تھا۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں تینوں طلاقیں واقع ہو چکی ہیں جن کی وجہ سے بیوی شوہر پر حرام ہو گئی ہے،لہذا اب رجوع یا صلح کی گنجائش باقی نہیں رہی  ہے۔

توجیہ:مذکورہ صورت میں شوہر کا یہ کہنا کہ”میں نے اسے تین طلاقیں دیدیں”یہ طلاق کا اقرار ہے۔طلاق کا اقرار اگرچہ جھوٹا ہو تو اس(اقرار کی وجہ)سے قضاء طلاق واقع ہوجاتی ہے۔لہذا مذکورہ صورت میں تینوں طلاقیں واقع ہو چکی ہیں۔

ہندیہ(349/1)میں ہے:أما البدعى الذي يعود الى العدد أن يطلقها ثلاثا في طهر واحد بكلمة واحدة او بكلمات متفرقة———– فاذا فعل ذالك وقع الطلاقبحر الرائق(3/264) میں ہے:و أكره على أن يقر بالطلاق فأقر لا يقع كما لو أقر بالطلاق هازلا أو كاذبا كذا في الخانية من الإكراه ومراده بعدم الوقوع في المشبه به عدمه ديانة لما في فتح القدير ولو أقر بالطلاق وهو كاذب وقع في القضاء اهـ.در مختار(4/428) میں ہے:ولو أقر بالطلاق كاذبا أو هازلا وقع قضاء لا ديانة.حاشیۃ الطحطاوی علی الدر(2/184) میں ہے:الاقرار بالطلاق کاذبا یقع به قضاءً لا دیانةً.بدائع الصنائع(3/295) میں ہے:و أما الطلقات الثلاث فحكمها الأصلي هو زوال الملك، و زوال حل المحلية أيضًا حتى لايجوز له نكاحها قبل التزوج بزوج آخر؛ لقوله عز وجل: {فإن طلقها فلا تحل له من بعد حتى تنكح زوجا غيره}۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved