• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

تین طلاقوں کے بعد بیوی کاضرورت کی وجہ سے شوہر کے گھرمیں رہنا

استفتاء

بندہ کے گھر میں اکثر جھگڑا وغیرہ ہوتارہتاہے۔ ایک بار والد نے بندہ کو فون کر کے کہاکہ اپنے بچوں کو سنبھالو۔ اور اسی گفتگو میں بندہ کی والد صاحب سے بہت ترش کلامی ہوئی۔ بالآخر والد نے بچوں کا خرچہ اٹھانے سے انکار کردیا اور کہا کہ یا بیوی چھوڑدو یا ان کی پرورش کرو۔ بندہ اس واقعہ کے کچھ دن بعد بالکل ہی تنگ دست ہوگیا۔ اور والدسے فون پر کافی سخت کلامی بھی ہوئی۔ بالآخر فون پر بیوی کو تین طلاقیں دے دیں اور والد کو کہاکہ اس کو  اس کے والد کے گھر چھوڑدو۔ اب طلاق واقع ہوئی ہے یا نہیں؟ اگر ہوگئی ہے تو اگر بندہ حالات کی بناء پر بیوی کے پاس تو  نہ جائے صرف اس کی اور بچوں کی دیکھ بھال کرے ، تو اس کا شریعت میں کیا حکم ہے؟

فون کے ذریعے اس نے یہ الفاظ دہرائیں کہ” یہ بیوی میری اوپر طلاق ہیں "یہ الفاظ اس نے تین بار دہرائیں ہیں۔لیکن خاندان کے وجہ سے وہ بیوی اور بچے ان کے پا ہیں ۔ کیا شوہر بیوی کے ساتھ رہ سکتاہے یا نہیں؟ یا ان کا دیکھ بال کر سکتاہے یانہیں؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں آپ کی بیوی کو تین طلاقیں واقع ہوگئی ہیں اور وہ آپ کے لیے حرام ہوگئی ہے۔ لہذاآپ کے لیے ان کے ساتھ میاں ،بیوی والے تعلقات قائم رکھنا ناجائز ہے۔

نوٹ: آپ کن حالات کی وجہ سے اکٹھے رہناچاہتےہیں اور آپ کی عمریں کیا ہیں؟

ومن الألفاظ المستعملة الطلاق يلزمني والحرام يلزمني وعلي الطلاق و علي الحرام . فيقع بلا نية للعرف. قال الشامي تحت قوله( فيقع بلا نية للعرف) أي فيكون صريحاً لا كناية بدليل عدم اشتراط النية.(ثم قال بعد سطر) وإنما كان ماذكره صريحا، لأنه صار فاشيا في العرف في استعماله في الطلاق لا يعرفون من صيغ الطلاق غيره. وقدمر أن الصريح ماغلب في العرف استعماله في الطلاق بحيث لا يستعمل عرفا إلا فيه من أي لغة كان. وهذا في عرفنا كذلك.وجب اعتباره صريحاً.(شامی،ص: 450،ج:4)

طلاق البدعة أن يطلقها ثلاثاً بكلمة واحدة أو ثلاثاً في طهر واحد وهو حرام عندنا لكنه إذافعل وقع الطلاق وبانت منه وحرمت حرمة غليظة وكان عاصياً۔(عنایہ علی حامش فتح القدیر،ص: 329، ج:3 ) ۔ فقط واللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved