• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

تین طلاقوں کے بعد سابقہ شوہر کے ساتھ ایک گھر میں رہنے کا حکم

استفتاء

ایک عورت کو تین طلاقیں ہو چکی ہیں وہ عدت میں ہے ،اس کے والدین وفات پا چکے ہیں اس لیے وہ اپنے جوان بیٹوں کے ساتھ اپنے سسر کی سر پرستی میں وقت گزار رہی ہے،جس مکان میں وہ رہتی ہے وہ اس کے سسر نے اس مطلقہ کے بیٹوں کے نام کر رکھا ہے جن کی عمر 16،17 سال کے قریب ہےکیونکہ مطلقہ کا شوہر اپنے باپ کا نافرمان ہے،گھر کا نقصان بھی کرتا ہے اور بیوی بچوں کے اخراجات کا خیال بھی نہیں رکھتااس لیے سسر نے مکان پوتوں کے نام کر دیا۔اس عورت کی ایک بہن زندہ ہے لیکن اس کے گھر بھی رہائش اختیار کرنا مشکل ہےاب بیٹے ہی بچتے ہیں کہ جن کے ساتھ وہ زندگی گزارےلیکن ایک عالمہ نےاس مطلقہ کو کہا ہے کہ آپ کا اس گھر میں رہنا ناجائز اور حرام ہے،آپکی عبادت بھی قبول نہیں ہو گی جس کی وجہ سے وہ بہت پریشان ہےکہ وہ کہاں جائے۔

سوال یہ ہے کہ کیا اس کے لیے اس گھر میں رہنا جائز ہے یا نہیں ؟شرعی طور پر رہنمائی فرما دیں۔

وضاحت:مذکورہ صورت میں مطلقہ کا سابقہ خاوند کہاں رہتا ہے؟

جواب وضاحت:وہ کبھی کبھار گھر میں آتا ہےوہ بھی مکان کی دوسری منزل پر،جب آتا ہے تو اپنے والد سے چھپ کرآتا ہے۔عورت سے سامنا نہیں ہوتا ،پردے کا خیال بھی رکھاجاتا ہے،اگر کبھی عورت کی رہائش والی منزل پر آبھی جائے تو بہت مختصر وقت کے اندر اندر والد کے خوف سے باہر چلا جاتا ہےنیز مطلقہ سے گفتگو کا موقع بھی نہیں ملتا۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں اس عورت کا اس گھر میں رہنا جائزہے بشرطیکہ عورت مکمل پردے کا اہتمام کرے اور سابقہ شوہر کے ساتھ خلوت کی نوبت نہ آنے دے اس لیے جب سابقہ شوہر گھر آئے تو سسر یا بیٹوں میں سے عورت کے ساتھ کوئی گھر پر ضرور موجود ہو کیونکہ سابقہ شوہر اب عورت کے لیے غیر محرم کی طرح ہے۔

توجیہ:مذکورہ صورت میں عورت کے لیے عدت کے بعد اس گھر کے علاوہ رہنے کے لیے کوئی اور گھر نہیں ہے جس کی وجہ سے عورت اس گھر میں رہنے پر مجبور ہے اس لیے عدت کے بعد عورت کے لیے اس گھر میں رہنا جائز ہے۔

حاشیہ ابن عابدين(3/ 537)میں ہے:

وإذا ‌طلقها ‌زوجها ‌وليس ‌لها إلا بيت واحد فينبغي أن يجعل بينه وبينها حجابا، وكذلك في الوفاة إذا كان له أولاد رجال من غيرها فجعلوا بينهم وبينها سترا أقامت وإلا انتقلت اهـ وأنت خبير بأن هذا نص ظاهر الرواية فوجب المصير إليه. ولعل وجهه خشية الفتنة حيث كانوا رجالا معها في بيت واحد وإن كانوا محارم لها بكونهم أولاد زوجها كما قالوا بكراهة الخلوة بالصهرة الشابة.

احسن الفتاویٰ(5/163) میں ہے:

سوال:]متعلقہ بالا مسئلہ کہ تین طلاقوں کے وقوع سے بیوی حرام ہو چکی ہے۔از ناقل[:میں ایک مہلک مرض میں مبتلا ہوں،اس حالت میں بیوی کے سوا دوسرا کوئی میری تیمارداری کرنے والا نہیں،اور نہ میرے بیوی بچوں کا میرے سوا کوئی پرورش کا ذریعہ ہے،لہذا ایسی صورت میں میں اپنی بیوی کو چھوڑنا نہیں چاہتا حالات مندرجہ بالا کو مدنظر رکھ کر کوئی گنجائش نکالیے،ورنہ میری اور بچوں کی زندگی تباہ ہو جائے گی۔

جواب:بڑھاپے اور مرض کے پیش نظر ایک دوسرے کے ساتھ تعاون اور خدمت جائز ہے بشرطیکہ میاں بیوی جیسا معاملہ نہ ہونے پائے،اگر کسی ناجائز معاملہ میں ابتلاء کا ادنیٰ سا خطرہ بھی ہو تو بالکل علیحدگی اختیار کرنا فرض ہے اور ایک مکان میں رہنا جائز نہیں،

فى فصل الحداد من عدة العلائية معزيا الى المجتبى لهما أن يسكنا بعد الثلاث فى بيت واحد اذا لم يلتقيا التقاء الازواج ولم يكن فيه خوف فتنة انتهى،وسئل عن شيخ الاسلام عن زوجين افترقا ولكل منهما ستون سنة وبينهما أولاد وتتعذر عليهما مفارقتهم فيسكنان فى بيتهم ولا يجتمعان فى فراش ولا يلتقيان التقاء الازواج هل لهما ذلك قال نعم وأقره المصنف،وفى الشامية(قوله: وسئل شيخ الإسلام) ‌حيث ‌أطلقوه ينصرف إلى بكر المشهور بخواهر زاده، وكأنه أراد بنقل هذا تخصيص ما نقله عن المجتبى بما إذا كانت السكنى معها لحاجة، كوجود أولاد يخشى ضياعهم لو سكنوا معه، أو معها، أو كونهما كبيرين لا يجد هو من يعوله ولا هي من يشتري لها، أو نحو ذلك والظاهر أن التقييد بكون سنهما ستين سنة وبوجود الأولاد مبني على كونه كان كذلك في حادثة السؤال كما أفاده ط….

خیر الفتاوی(/5/72)میں ہے:

سوال:بیوی کو طلاق دینے کے بعد کسی صورت میں اپنے گھر میں رکھا جا سکتا ہے جبکہ شوہر بوڑھا ہو اور اس کے ساتھ نا محرم جیسا سلوک کرے۔

جواب:حرمت کے بعد ساتھ رہنے کی اجازت ضرورت شدیدہ کی بناء پر ہے مثلا بچے بہت چھوٹے ہیں علیحدگی کی صورت میں وہ کہیں کے نہیں رہیں گے،یا بہت زیادہ بڑھاپا ہو اور علیحدگی میں شدید تکلیف کا اندیشہ ہو تو کچھ گنجائش ہے اس میں بھی یہ خیال رکھیں کہ خلوت میں نہ بیٹھیں،نیز اجنبیہ کے جن حصوں کو دیکھنا جائز نہیں اسے بھی نہ دیکھیں نیز اسے بتا بھی دیں کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ اپنے آپ کو بیوی سمجھ کر آپ کی قیدی بنی رہے اور حقیقت اس کے خلاف ہو۔

وكأنه ‌أراد بنقل هذا تخصيص ما نقله عن المجتبى بما إذا كانت السكنى معها لحاجة، كوجود أولاد يخشى ضياعهم لو سكنوا معه، أو معها، أو كونهما كبيرين لا يجد هو من يعوله ولا هي من يشتري لها، أو نحو ذلك.(شامی فصل فی الحداد)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved