• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

تین طلاقوں کی عدت کے دوران اگر شوہر عام مرض سے فوت ہوجائے تو کیا مطلقہ بیوی کو وراثت ملے گی؟

استفتاء

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

حضرت مفتی صاحب  ایک شوہر اپنی بیوی کو تین طلاق اکٹھی  دے دیتاہے اور بیوی  کے طلاق کی عدت گذارنے کے عرصہ میں شو ہر کی وفات ہو جاتی ہے  کیا اس مطلقہ بیوی کو شوہر کی وراثت سے حصہ  ملے گا یا نہیں؟

وضاحت مطلوب :(۱) تین طلاقیں صحت میں دیں یا بیماری میں ؟ (۲) اگربیماری میں دیں توکیا  بیوی کے مطا لبے  پر  دیں  بغیر مطالبے کے ؟  اوربیماری  کی کیفیت کیا تھی؟

جواب وضاحت :  (۱)تین طلاقیں بیماری میں  دیں (۲) بیوی  کے مطالبے کے   بغیر  دیں ،جس وقت طلاق دی  اس وقت  ایسا بیمار نہیں تھا کہ عام طور پر جس سےآدمی کی وفات ہو جاتی ہے  بلکہ عام روٹین کا بخارتھا

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں بیوی کو شوہر کی وراثت سے حصہ نہیں ملے گا۔

توجیہ: مذکورہ صورت  میں جس وقت شوہر نے طلاق دی تھی اس وقت اگرچہ  وہ بیمارتھا لیکن  یہ بیماری مرض الوفات کی حدتک نہیں تھی ،اگرمرض الوفات کی حد تک شوہر بیمار ہوتا اور اسی حالت طلاق دیتا اور عدت کے اندر فوت ہوجاتاتو عورت وراثت کی حق دار ہوتی۔

در مختار ( 5/16)میں ہے:

أبانها في مرضه فصح فمات أو أبانها فارتدت فأسلمت) فمات (لا) ترثه، لانه لابد أن يكون المرض الذي طلقها فيه مرض الموت

 

فتاوی شامی (5/6 ) میں ہے:

أقول ومقتضى هذا كله أنه لو كان مريضا مرضا يغلب منه الهلاك لكنه لم يعجزه من مصالحہ كما يكون في ابتداء المرض لا يكون فارا

 وفي نور العين قال أبو الليث كونه صاحب فراش ليس بشرط لكونه مريضا مرض الموت بل العبرة للغلبة لو الغالب من هذا المرض الموت فهو مرض الموت وإن كان يخرج من البيت وبه كان يفتي الصدر الشهيد

 ثم نقل عن صاحب المحيط أنه ذكر محمد في الاصل مسائل تدل عن أن الشرط خوف الهلاك غالبا لا كونه صاحب فراش

امداد الفتاوی  (5/244) میں ہے

اگر یہ مریض ایسا بیمار تھا جس میں غالب گمان حیات کا تھا تو یہ مرض موت نہیں ہے اور اس صورت میں اگر زوج عدت زوجہ کے اندر مرجائے تو زوجہ وارث نہ ہوگی۔ ایک صورت تو یہ ہوئی اور اگر اس بیماری میں ظاہر حال سے اندیشہ مرجانیکا تھا تو یہ مرض موت ہے۔ پھر اس مرض موت میں یہ تفصیل ہے کہ دیکھنا چاہیے کہ طلاق رجعی ہے یا بائن اگر رجعی ہے تووارث ہوگی اور یہ دوسری صورت ہوئی اور اگر بائن ہے تو دیکھنا چاہئے کہ زوجہ کی اجازت سے ہے یا بلااجازت اگر اجازت سے ہے تو وارث نہ ہوگی  اور یہ تیسری صورت ہوئی اور اگر بلا اجازت ہے تووارث ہوگی اور یہ چوتھی ہوئی پس اول اور تیسری صورت وارث نہ ہونے کی ہیں اور دوسری اورچوتھی صورت وارث ہونے کی ہیں

 

احسن الفتاوی (9/327) میں ہے:

سوال :مرض الموت  کی جامع مانع تعریف مطلوب ہے ۔ضعیف آدمی جس کو کوئی مرض نہ ہو ،

وہ مریض بمرض الموت سمجھا جائے گا یا نہیں ؟ا گر سمجھا جائے گا تو کتنی عمر ہو جانے پر؟ نیزکینسر وغیرہ جیسی بیماریاں جوعموما موت کاسبب سمجھی جاتی ہیں،وہ مرض الموت میں داخل  ہیں یانہیں؟

الجواب :مرض الموت  ایسی حالت کو کہتے ہیں جس میں ہلاکت کا اندیشہ ہو  اور اسی حالت میں مربھی  جائے خواہ اسی عارضہ سےمراہو یا کسی  دوسری  وجہ سے  ہو ،یاکسی  دوسری وجہ   سے،   خواہ یہ حالت مرض کی وجہ سے ہو یا کسی اور وجہ سے ،مثلا کوئی شخص کشتی میں ڈوب رہاہو ۔

اگر مرض  کا مہلک ہونا  معلوم نہ ہو تو اسے مرض الموت جب کہیں گے کہ اس میں  اس قدر اضافہ ہو جائے کہ مریض گھر سے باہر کے ضروری مصالح سے عاجز ہو جائے  مثلا عالم مسجد  میں جانے  اورتاجر تجارت سے عاجز ہوجائے ۔اگر مرض کسی  مر حلہ پر ٹھہر جائے   یعنی  اس میں اضافہ نہ ہو رہاہو اور اس  ٹھہراؤ کے بعد ایک سال اسی حالت  میں پوراہو جائے  تو یہ مرض  الموت میں  داخل نہیں       پھر جب مرض بڑھ جائے اور اسی  زیادتی کی حالت میں مر بھی جائے تو اس زیادتی کے وقت سے  مرض  الموت ہوگا۔

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved