• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

تحریری خلع نامے کا حکم

استفتاء

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ میاں بیوی نے اپنی رضامندی سے خلع نامے پر دستخط کر دیے ہیں، کیا مذکورہ صورت میں خلع درست ہو گیا ہے؟ خلع نامہ ساتھ لف ہے۔یہ میری ہمشیرہ کا مسئلہ ہے۔

خلع نامہ کی عبارت:

۔۔۔۔۔۔۔میں درخشاں سلیم بنت محمد سلیم صدیقی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نے باہوش حواس اپنی مرضی و خوشی سے بغیر کسی دباؤ یا لالچ کے خلع کی شرط پر مہر و عدت کا خرچہ معاف کر دیا ہے، اور اپنے شوہر محمد عبدالعزیز صمد ولد محمد عبد الصمد کو اپنے تمام مالی و غیر مالی حقوق سے بری کردیا ہے آئندہ میرا اس سے کوئی بھی مالی یا غیر مالی مطالبہ کبھی بھی اور کہیں بھی نہ ہو گا، اور نہ ہی میں ان کی کوئی دین دار ہوں۔

 میں محمد عبدالعزیز ولد محمد عبدالصمد نے با ہوش حواس اپنی مرضی و خوشی سے بغیر کسی دباؤ یا لالچ کے اپنی بیوی کے مطالبہ کرنے پر اپنی بیوی درخشاں سلیم بنت محمد سلیم صدیقی کو خلع دے دیا ہے اور اس کو اپنے تمام مالی و غیرمالی حقوق سے بری کردیا ہے۔ نیز ہم فریقین کی کوئی اولاد نہیں ہے لہذا میں نے آج5 جون 2021 کو یہ تحریر بنوا دی ہے تاکہ سند رہے اور بوقت ضرورت کام آئے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں اگر واقعتا شوہر نے اپنی رضامندی سے خلع نامے پر دستخط کر دیے تھے تو خلع نامے کی رو سے خلع درست ہو گیا ہے اور ایک بائنہ طلاق واقع ہو گئی ہے، جس کی وجہ سے سابقہ نکاح ختم ہو گیا ہے، لہذا اگر میاں بیوی اکٹھے رہنا چاہیں تو کم از کم دو گواہوں کی موجودگی میں نئے مہر کے ساتھ دوبارہ نکاح کر کے رہ سکتے ہیں، اور اگر لڑکی کہیں اور نکاح کرنا چاہے تو عدت گزرنے کے بعد نکاح کر سکتی ہے۔

نوٹ:دوبارہ نکاح کرنے کی صورت میں شوہر کے پاس آئندہ صرف دو طلاقوں کا حق باقی ہو گا۔

بدائع الصنائع (3/229) میں ہے:

وأما ركنه فهو الإيجاب والقبول؛ لأنه عقد على الطلاق بعوض فلا تقع الفرقة، ولا يستحق العوض بدون القبول.

البحرالرائق (120/4) میں ہے:

(قوله الواقع به، وبالطلاق على مال طلاق بائن) أي بالخلع الشرعي أما الخلع فقوله عليه الصلاة والسلام الخلع تطليقة بائنة، ولأنه يحتمل الطلاق حتى صار من الكنايات، والواقع بالكناية بائن.

بدائع الصنائع (295/3) میں ہے:

فالحكم الأصلي لما دون الثلاث من الواحدة البائنة، والثنتين البائنتين هو نقصان عدد الطلاق، وزوال الملك أيضا حتى لا يحل له وطؤها إلا بنكاح جديد ولا يصح ظهاره، وإيلاؤه ولا يجري اللعان بينهما ولا يجري التوارث ولا يحرم حرمة غليظة حتى يجوز له نكاحها من غير أن تتزوج بزوج آخر لأن ما دون الثلاثة وإن كان بائنا فإنه يوجب زوال الملك لا زوال حل المحلية.

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved