• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

تحریری میسج کے ذریعے طلاق دینے کا حکم

استفتاء

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ میرا بیوی سے جھگڑا  ہو گیا تھا اور وہ میکے گئی ہوئی  تھی، میں نے اس کو آنے کا کہا مگر وہ انکار کرتی رہی، جس کی وجہ سے مجھے غصہ آ گیا اور میں نے غصے میں اس کو میسج کیا اور یہ الفاظ لکھ کر بھیجے کہ ’’تم ادھر ہی رہو آنے کی ضرورت نہیں، تمہیں اب کبھی بھی آنے کی ضرورت نہیں، خدا حافظ ہمیشہ کے لیے، میں تمہیں چھوڑ رہا ہوں‘‘ان الفاظ سے میری طلاق کی نیت نہیں تھی صرف ڈرانے کے لیے میسج کیا تھا،  مذکورہ صورت میں طلاق ہو گئی ہے یا نہیں ہوئی؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں اگر شوہر طلاق کی نیت نہ ہونے پر بیوی کے سامنے قسم دیدے تو ایک رجعی طلاق واقع ہو گی، اور اگر قسم دینے سے انکار کرے تو دو بائنہ طلاقیں واقع ہو جائیں گی۔

نوٹ: رجعی طلاق کا حکم یہ ہے کہ شوہر عدت کے اندر اندر رجوع کرنا چاہے تو کر سکتا ہے اور عدت کے بعد کم از کم دو گواہوں کی موجودگی میں نئے مہر کے ساتھ دوبارہ نکاح کرنا ضروری ہوتا ہے۔ اور بائنہ طلاق کا حکم یہ ہے کہ سابقہ نکاح ختم ہو جاتا ہے اور  عدت کےاندر یا عدت کے بعد دوبارہ اکٹھے رہنے کے لیے کم از کم دو گواہوں کی موجودگی میں نئے مہر کے ساتھ نیا نکاح کرنا ضروری ہوتا ہے۔

توجیہ: ہماری تحقیق میں میسج کی تحریر کتابتِ مستبینہ غیر مرسومہ ہے اور طلاق کی کتابتِ مستبینہ غیر مرسومہ چاہے الفاظ کے لحاظ سے صریح ہو مگر کتابت اور پھر غیر مرسومہ ہونے کی وجہ سے نیت کے حق میں ملحق بالکنایہ ہوتی ہے  جس سے غصہ یا مذاکرۂ طلاق کے وقت شوہر کی نیت کے بغیر بھی بیوی کے حق میں طلاق واقع ہوجاتی ہے۔ مذکورہ صورت میں شوہر نے چونکہ طلاق کا تحریری میسج غصہ کی حالت میں بھیجا تھا اس لیے طلاق کی نیت نہ ہونے کے باوجود بھی ’’میں تمہیں چھوڑ رہا ہوں‘‘ کے الفاظ سے بیوی کے حق میں ایک رجعی طلاق واقع ہو گئی ہے کیونکہ یہ الفاظ طلاق کے معنی میں صریح ہیں۔ اور  شوہر کے یہ الفاظ کہ ’’تم ادھر ہی رہو آنے کی ضرورت نہیں، تمہیں اب کبھی بھی آنے کی ضرورت نہیں، خدا حافظ ہمیشہ کے لیے‘‘ زیادہ سے زیادہ کنایات کی دوسری قسم ہو سکتے ہیں جن سے غصے کی حالت میں بھی نیت کے بغیر طلاق واقع نہیں ہوتی، تاہم طلاق کی نیت نہ ہونے پر شوہر کو قسم دینی پڑتی ہے،  مذکورہ صورت میں چونکہ شوہر کی طلاق کی نیت نہیں تھی لہذا اگر شوہر طلاق کی   نیت نہ ہونے پر بیوی کے سامنے قسم دیدے گا تو ان الفاظ سے کوئی طلاق واقع نہ ہو گی، اور اگر شوہر قسم سے انکار کرے تو ان الفاظ سے ایک بائنہ طلاق واقع ہو گی اور بعد والی طلاق کے لحوق کی وجہ سے دو بائنہ طلاقیں واقع ہو جائیں گی۔

فتاویٰ النوازل لابی اللیث السمرقندی(ص215) میں ہے:

ثم الكتاب إذا كان مستبيناً غير مرسوم كالكتابة على الجدار وأوراق الأشجار وهو ليس بحجة من قدر على التكلم فلا يقع إلا بالنية والدلالة.

البحر الرائق (103/3) میں ہے:

ومستبين غير مرسوم كالكتابة على الجدران وأوراق الأشجار أو على الكاغد لا على وجه الرسم فإن هذا يكون لغوا؛ لأنه لا عرف في إظهار الأمر بهذا الطريق فلا يكون حجة إلا بانضمام شيء آخر إليه كالبينة والإشهاد عليه والإملاء على الغير حتى يكتبه؛ لأن الكتابة قد تكون تجربة وقد تكون للتحقيق وبهذه الإشارة تتبين الجهة

فتاوی شامی(4/519) میں ہے:

فإذا قال ” رهاكردم ” أي سرحتك يقع به الرجعي مع أن أصله كناية أيضا، وما ذاك إلا لأنه غلب في عرف الفرس استعماله في الطلاق وقد مر أن الصريح ما لم يستعمل إلا في الطلاق من أي لغة كان.

عالمگیری (1/470) میں ہے:

وإذا طلق الرجل امرأته تطليقة رجعية أو تطليقتين فله أن يراجعها في عدتها رضيت بذلك أو لم ترض كذا في الهداية.

درمختار (5/42) میں ہے:

(وينكح) مبانته بما دون الثلاث في العدة وبعدها بالإجماع.

درمختار (4/528) میں ہے:

(الصريح يلحق الصريح و) يلحق (البائن) بشرط العدة

درمختار (4/521) میں ہے:

ففي حالة الرضا) أي غير الغضب والمذاكرة (تتوقف الأقسام) الثلاثة تأثيرا (على نية) للاحتمال والقول له بيمينه في عدم النية ويكفي تحليفها له في منزله، فإن أبى رفعته للحاكم فإن نكل فرق بينهما مجتبى.(وفي الغضب) توقف (الأولان) إن نوى وقع وإلا لا.

و فى الشامية تحته: والحاصل أن الأول يتوقف على النية في حالة الرضا والغضب والمذاكرة، والثاني في حالة الرضا والغضب فقط ويقع في حالة المذاكرة بلا نية، والثالث يتوقف عليها في حالة الرضا فقط، ويقع حالة الغضب والمذاكرة بلا نية.

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved