• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

تین طلاق کے بعد غلط فہمی سے دو طلاقیں سمجھ کر دوبارہ نکاح کرلیا، اس نکاح کا اور حق مہر کا کیا حکم ہے؟

استفتاء

السلام علیکم! مفتی صاحب، ایک سابقہ مسئلہ کی مزید وضاحت درکار ہے چونکہ سابقہ فتویٰ (نمبر: 22/234) میں آپ نے بیوی کا رابطہ نمبر پوچھا تھا لیکن اس نے بات کرنے سے انکار کیا تھا۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ میں نے پہلے سوال میں کہا تھا کہ میں نے ایک  طلاق اپنی بیوی کو کال پر دی ہے لیکن اسکے علاوہ کال پر ایک طلاق اور بولی تھی جس کا بیوی نے کہا تھا کہ اس نے سنی نہیں اس لیے نہیں ہوئی اور وہ  حلفاً کہتی ہے کہ اسنے نہیں سنی، اس لئے میں نے اس طلاق کو چھوڑ دیا تھا کہ اگر بیوی نہ سنے تو طلاق نہیں ہوتی۔ آپ کے فتویٰ کو مد نظر رکھ کر میں نے بیرون ملک سے اپنا وکیل بناکر کچھ دن پہلے رمضان شریف میں نیا حق مہر 5000 روپے معجل  سے نکاح کرلیا ہے اور نکاح کے بعد مجھے پتہ چلا کہ بیوی الفاظِ طلاق سنے یا نہ سنے شوہر نے طلاق بول دی تو طلاق ہوجاتی ہے اور یہ بات میں حلفاً بتا سکتا ہوں کہ میں نے کال پے وقفے وقفے سے دو بار ہی بولا تھا۔ میرے سابقہ سوال میں پہلی طلاق سٹام پیپر کے ذریعے دینے کے بعد کال پر ایک طلاق دینے کا ذکر ہے جبکہ کال پر دو دفعہ طلاق دی تھی۔

اب میرے سوالات یہ ہیں کہ:

(1) اگر واقعی بیوی نہ سنے تو کیا طلاق نہیں ہوتی اور اگر ہو جاتی ہے تو کیا ہماری تین طلاقیں ہوگئیں ہیں؟

(2) کیا ہمارا نکاح کرنا درست ہے اور ہم شوہر اور بیوی کی طرح رہ سکتے ہیں؟ اگر نہیں رہ سکتے تو جو نکاح ہوا اسکی شرعی حیثیت کیا ہوگی؟ اس نکاح کو مانا جائے گا یا نکاح کی کوئی حیثیت نہیں؟

(3) اس نکاح میں حق مہر جو 5000 روپے مقرر ہوا تھا وہ ادا کرنا ہوگا یا نہیں؟

براہِ مہربانی جواب ارسال فرما کر شکریہ کا موقع دیں۔ سابقہ فتویٰ وضاحت کے لئے ساتھ لف ہے ۔شکریہ

وضاحت مطلوب ہے کہ: (1) کال پر طلاق دیتے وقت کیا الفاظ استعمال کیے تھے؟

(2) کیا دوبارہ نکاح کرنے کے بعد ہمبستری بھی ہوئی ہے؟

جوابِ وضاحت: (1) جب کال پر پہلی طلاق دی تھی تو الفاظ یہ تھے کہ ’’میں تم کو ایک طلاق دیتا ہوں‘‘جس کے بارے میں انہوں نے بتایا کہ نہیں سنی اور ایسے نہیں ہوتی۔ میں نے کہا تھا کہ تم نے سنی یا نہیں اس کا مجھے علم نہیں لیکن میں نے الفاظ ادا کردئیے ہیں۔دو تین دن یہی بحث ہوتی رہی کہ نہیں سنی تو نہیں ہوتی۔اس کے  تقریباً چار دن بعد میں نے کال پر دوبارہ بول دیا کہ پہلی طلاق تم کہتی ہو کہ  نہیں سنی، اس کا مجھے علم نہیں ہے ’’میں تم کو ایک طلاق دیتا ہوں‘‘ جو کہ انہوں نے سن لی اور کچھ دن بعد مجھے کہنا شروع کردیا کہ انہوں نے پتہ کیا ہے، ایسے طلاق نہیں ہوتی جو سنی نہیں اور رجوع کرلو، موقع ہے لیکن میں نے رجوع نہیں کیا اور پھر تقریبا پانچ مہینے بعد پاکستان واپس جاکر طلاق ثلاثہ کا نوٹس بھیج دیا۔

(2) ہمبستری نہیں ہوئی، میں سعودی عرب میں ہوں اور وہ پاکستان میں ہے اور نکاح بھی یہیں سے وکیل کے ذریعے ہوا ہے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

(1) طلاق واقع ہونے کے لیے بیوی کا طلاق کے الفاظ سننا ضروری نہیں لہٰذا اگر شوہر طلاق کے الفاظ ادا کردے تو طلاق واقع ہوجاتی ہے۔ مذکورہ صورت میں پہلی طلاق اسٹام پیپر کے ذریعے دینے کے بعد پہلی دفعہ کال پر طلاق کے الفاظ بیوی نے چاہے نہ بھی سنے ہوں پھر بھی ان سے دوسری طلاق واقع ہوگئی تھی۔ اس کے چند دن بعد شوہر نے جب دوبارہ کال کی اور کہا کہ ’’میں تم کو ایک طلاق دیتا ہوں‘‘ اس سے تیسری طلاق بھی واقع ہوگئی تھی۔

(2)تین طلاقوں کے بعد دوبارہ نکاح کرنے کی گنجائش نہیں رہتی لہٰذا مذکورہ صورت میں جو دوبارہ نکاح کیا گیا وہ درست نہیں ہوا اور نہ میاں بیوی کا اکٹھے رہنا جائز ہے۔ لیکن شوہر نے چونکہ یہ سمجھتے ہوئے دوبارہ نکاح کیا تھا کہ ابھی دو طلاقیں واقع ہوئی ہیں اور دوباره نكاح كرنے کی گنجائش ہے، اس لیے اس شبہ کی وجہ سے یہ نکاح فاسد ہے جس کو فسخ کرنا ضروری ہے، اور نکاح فسخ کرنے کے لیے شوہر بیوی کو طلاق دے دے یا میاں بیوی میں سے کوئی ایک یہ کہہ دے کہ ’’میں نے اپنا نکاح جو فلاں سے ہوا تھا فسخ کیا‘‘

(3)نکاحِ فاسد میں ہمبستری سے پہلے مہر لازم نہیں ہوتا۔ مذکورہ صورت میں بھی چونکہ ابھی تک میاں بیوی میں ہمبستری کا تعلق نہیں ہوا اس لیے مہر بھی لازم نہیں ہوا۔

مبسوط سرخسی (6/27) میں ہے:’’(ولو كتمها الطلاق ثم راجعها وكتمها الرجعة فهي امرأته) لأنه في إيقاع الطلاق هو مستبد به وكذلك في الرجعة….. الخ‘‘بدائع الصنائع (3/295) میں ہے:’’وأما الطلقات الثلاث فحكمها الأصلي هو زوال الملك وزوال حل المحلية أيضا حتى لا يجوز له نكاحها قبل التزوج بزوج آخر لقوله عز وجل {فإن طلقها فلا تحل له من بعد حتى تنكح زوجا غيره}‘‘ہدایہ مع فتح القدیر (4/292) میں ہے:’’(والمنكوحة نكاحا فاسدا والموطوءة بشبهة عدتهما الحيض في الفرقة والموت)……… (وإذا وطئت المعتدة بشبهة فعليها عدة أخرى وتداخلت العدتان…… الخ[قال ابن الهمام تحته]: والوطء بشبهة يتحقق بصور. منها التي زفت إلى غير زوجها، والموطوءة للزوج بعد الثلاث في العدة بنكاح قبل نكاح زوج آخر أو في العدة إذا قال: ظننت أنها تحل لي …….. ففي هذه تجب عدتان ويتداخلان‘‘

در مختار مع رد المحتار (4/267) میں ہے:’’(و) يثبت (لكل واحد منهما فسخه ولو بغير محضر عن صاحبه ودخل بها أو لا) في الأصح خروجا عن المعصيةقال في رد المحتار [4/269]: والطلاق فيه متاركة لكن لا ينقص به عدد الطلاق‘‘امداد الاحکام (2/267) میں ایک سوال کے جواب میں ہے:’’جب نکاح صحیح نہ ہوا تو لڑکی کو شوہر سے طلاق لینے کی ضرورت نہیں بلکہ چند آدمیوں کے سامنے اسے اتنا کہہ دینا چاہئے کہ میں اپنے نکاح کو جو فلاں شخص سے ہوا تھا فسخ کرتی ہوں اور بہتر یہ ہے کہ شوہر کے سامنے بھی یہ بات کہہ دے گو ضرورت نہیں۔۔۔۔ ۔۔۔۔قال في الخلاصة ……. والمتاركة في النكاح الفاسد بعد الدخول لا يكون إلا بالقول تركتك أو خليت سبيلك إلى أن قال وفي المحيط لكل واحد فسخ هذا العقد بغير محضر من صاحبه قبل الدخول وبعد الدخول ليس لكل واحد حق الفسخ الا بحضرة صاحبه كالبيع الفاسد وعند بعض المشائخ لكل واحد حق الفسخ بعد الدخول وقبله….. الخ (ج2، ص41)‘‘البحر الرائق (3/294) میں ہے:’’قوله: (وفي النكاح الفاسد إنما يجب مهر المثل بالوطء) لأن المهر فيه لا يجب بمجرد العقد لفساده وإنما يجب باستيفاء منافع البضع وكذا بعد الخلوة لأن الخلوة فيه لا يثبت بها التمكن فهي غير صحيحة كالخلوة بالحائض فلا تقام مقام الوطء‘‘۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved