• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

تو میری طرف سے فارغ ہے۔ عدت کے بعد مزید طلاقیں دینا

استفتاء

میری بیوی عرصہ تین سال سے باہر ملک میں ہے، ہماری شادی 2003ء میں ہوئی تھی، ایک بیٹا بھی ہے، بیوی واپس نہیں آ رہی تھی، میں اسے بلا رہا تھا، گھر والے زور دے رہے تھے کہ اگر وہ واپس نہیں آتی تو اسے طلاق دے کر فارغ کر دو۔ میں نیٹ پر بیٹھا سکائپ کے ذریعے سے زبانی بات چیت کر رہا تھا، پیچھے میرے گھر والے بھی بیٹھے ہوئے تھے، میں نے اسے یہ بات کہی "میں تجھے طلاق دے رہا ہوں، میں تجھے طلاق دے رہا ہوں، میں تجھے طلاق دے رہا ہوں”۔ میں  چونکہ گھر  والوں کو مطمئن کرنے کے لیے کر رہا تھا، اس لیے میں طلاق (ط ل ا ق) کی بجائے "کلاک” کا لفظ بولا تھا اور میری نیت بھی نہیں تھی، لیکن گھر والے اور وہ لڑکی بھی یہی سمجھی کہ میں نے طلاق کا لفظ بولا ہے۔ اب وہ کہتی ہے کہ اگر ہمارے درمیان کوئی گنجائش ہے تو تحریری فتویٰ دکھا دو، میں واپس آ جاتی ہوں۔

مفتی صاحب! میں نے آج سے تقریباً پانچ سال پہلے لا علمی میں غصے کی حالت میں بیوی کو یہ بھی کہا تھا "تو میری طرف سے فارغ ہے۔” اب بتایا جائے کہ گنجائش ہے یا نہیں؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں ایک طلاق بائن واقع ہو چکی ہے، میاں بیوی اگر چاہیں تو باہمی رضا مندی سے کم از کم دو گواہوں کی موجودگی میں نئے مہر کے ساتھ نکاح کر سکتے ہیں۔ اور یاد رہے کہ آئندہ کے لیے مرد کے پاس صرف دو طلاقوں کا اختیار باقی رہے گا۔

توجیہ: مرد کے پانچ سال قبل غصہ کی حالت میں کہے گئے الفاظ "تو میری طرف سے فارغ ہے” کنایات کی تیسری قسم میں سے ہے، جن کا حکم یہ ہے کہ یہ الفاظ اگر غصہ کی حالت میں کہے جائیں تو اس سے طلاق بائن واقع ہو جاتی ہے۔ رہا باقی الفاظ کا معاملہ تو

چونکہ عورت طلاق کا محل نہیں رہی اس لیے بقیہ الفاظ کو لغو قرار دیا جائے گا۔

الكنايات ثلاث ما يحتمل الرد أو ما يصلح للسب أو لا و لا. (الدر المختار: 2/ 502)

الصريح يلحق الصريح و يلحق البائن بشرط العدة. (الدر المختار: 2/ 508) فقط و الله أعلم

 

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved