• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

’’تم فارغ ہو‘‘

استفتاء

میرا مسئلہ یہ ہے کہ میرا نکاح تقریباً ڈیڑھ سال پہلے ہوا اور رخصتی ابھی تک نہیں ہوئی۔ اس دوران کئی مرتبہ مجھے اپنی بیوی کے ساتھ ایسی جگہوں پر خلوت کا موقع ملا کہ اگر میں وہاں اپنی بیوی کے ساتھ میاں بیوی والا تعلق قائم کرنا چاہتا تو کر سکتا تھا، کچھ رکاوٹ نہ تھی مگر میں نے ایسا نہ کیا۔ بعد میں کئی دفعہ میں نے اپنی بیوی کو غصے میں طلاق کی نیت سے یہ الفاظ کہے ہیں کہ ’’تم فارغ ہو‘‘ یہ الفاظ میں نے کبھی ایک ساتھ نہیں کہے بلکہ کبھی دو ماہ بعد کبھی چار ماہ بعد اور کبھی چھ ماہ بعد بھی کہے ہیں، اور جب پہلی مرتبہ یہ الفاط کہے تو اس سے پہلے مجھے کافی دفعہ خلوت کا موقع مل چکا تھا۔ اب میں قرآن و سنت کی روشنی میں معلوم کرنا چاہتا ہوں کہ ایسی صورت میں میرے لیے کیا حکم ہے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں جب سائل نے پہلی مرتبہ غصے میں طلاق کی نیت سے اپنی بیوی کو یہ الفاظ کہے کہ ’’تم فارغ ہو‘‘ تو ان الفاظ کے کہنے سے ایک طلاق بائنہ واقع ہو گئی ہے جس کی وجہ سے نکاح ختم ہو گیا ہے۔ اس کے بعد کہے گئے الفاظ سے کوئی نئی طلاق واقع نہیں ہوئی۔۔ لہذا اگر میاں بیوی دوبارہ اکٹھے رہنا چاہتے ہیں تو نئے مہر اور کم از کم دو گواہوں کی موجودگی میں نیا نکاح کر کے رہ سکتے ہیں۔

نوٹ: سائل کے پاس آئندہ  کے لیے صرف دو طلاقوں کا حق باقی رہے گا۔

فتاویٰ شامی (516/4) میں ہے:

(فــ) الكنايات (لا تطلق بها) قضاءً (إلا بنية أو دلالة الحال) و هي حالة مذاكرة الطلاق.

أيضاً (531/4)

(لا) يلحق البائن (البائن) …………………………. فقط و الله تعالى أعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved