• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

” تم فارغ ہو میری طرف سے ،تم میری طرف سے فارغ ہو ،تم میری طرف سے فارغ ہو ” کہنےکے 5 سال بعد صریح طلاق دینے کا حکم

استفتاء

میں خدا کو حاضر ناظر جان کر سچ بول رہی ہوں ۔ مجھے اس مسئلہ پر فتوی چاہیے ۔ آج سے 6 سال پہلے میرے شوہر نے غصے میں آکر کلمہ پڑھ کر کہا کہ ” تم فارغ ہو میری طرف سے ،تم میری طرف سے فارغ ہو ،تم میری طرف سے فارغ ہو ” اس کے دس دن بعد ہماری کوئی بات چیت نہیں ہوئی  پھر صلح ہو گئی اور ہم ایک ساتھ رہنے لگے  اور  پھر آج سے 8 ماہ پہلے ہماری لڑائی ہوئی پھر انہوں نے مجھے طلاق اول کا نوٹس بھیج دیا  اور نوٹس کے دو ماہ بعد ہمارا رجوع ہوگیا اورہم میاں بیوی کی طرح رہنے لگے اور اب 22 جون 2023 کو بوقت صبح 4:45 پر ہماراجھگڑا ہوا جو کہ معمولی تھا ۔ میں نے کہا میں نے اپنے پاپا کے گھر جانا تھا اور آپ صبح 5 بجے گھر آ رہے ہیں۔ اب میں پاپا کے گھر کیسے جا سکتی ہوں۔ اسی بات پر لڑائی چلتی رہی اور انہوں نے کہا "جا  اپنے باپ سے طلاق کا پیپر لے” میں نے کہا یہ بچے تمہارے ہیں میرے باپ کے نہیں۔ میں نے طلاق بھی تم سے لینی ہے باپ سے نہیں ۔ میں تیرے بچے کی تین ماہ کی حاملہ ہوں۔ اس نے مجھے دھکا دیا جس سے میں زمین پر گر گئی اور اس نے کہا کہ "میں نے تمہیں طلاق دی،طلاق دی ،طلاق دی” میں نے اٹھ کر کہا کہ ایسے طلاق نہیں ہوتی ،پورے ہوش و حواس میں ہوتی ہے جبکہ یہ مکمل ہوش و حواس میں تھا کوئی نشہ وغیرہ نہیں کیا ہوا تھا ۔ اس نے دوبارہ کہا کہ "میں رانا بدر اپنے ہوش و حواس میں تمہیں طلاق دیتا ہوں ،طلاق دیتا ہوں ،طلاق دیتا ہوں”اور مجھے دیوار کی طرف دھکا دیا ۔برائے مہر بانی اس بارے میں راہنمائی فرمائیں کہ طلاق ہو چکی ہے یا کوئی حل نکل سکتا ہے ؟

تنقیح : 5 سال قبل دوبارہ نکاح نہیں کیا تھا بلکہ لوگوں کو کھانا کھلایا اور میاں بیوی کی طرح رہنے لگے۔

طلاقنامے کی عبارت:

”  …………………….. لہٰذا اب  من مقر اپنی زوجہ کو طلاق اول کا نوٹس دیتا ہوں ………… لہٰذا من مقر نے طلاق نوٹس اول لکھوا کر، پڑھ کر، سن کر، سمجھ کر، بقائمی ہوش وحواس خمسہ بلا جبر واکراہ بلا ترغیب غیرے بدرستگی عقل روبرو گواہان حاشیہ اپنے دستخط ونشان انگوٹھا ثبت کردئیے ہیں تاکہ سند رہے اور بوقت ضرورت کام آوے”

شوہر کا موقف :

 مجھے اس  ساری بات سے اتفاق ہے ۔پہلی مرتبہ جب "میری طرف سے فارغ ہو ” کہا تھا تو طلاق کی نیت سے نہیں کہا تھا بلکہ ڈرانے کے لیے کہا تھا   اور اس کے بعدمیں نے کفارہ کے طور پر 60 لوگوں کو کھانا بھی کھلایا تھا۔ اور اس لڑائی میں "جا اپنے باپ سے طلاق کا  پیپر لے ” یہ جملہ بھی طلاق کی نیت سے نہیں کہا ۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں تینوں طلاقیں واقع ہو چکی ہیں اور بیوی شوہر پر حرام ہو چکی ہے لہذا اب نہ رجوع ہو سکتا ہے اور نہ صلح کی گنجائش ہے۔

توجیہ: کنایاتِ طلاق جس قسم سے بھی ہوں،ان سے دیانتاً(شوہر کے حق میں) طلاق کا واقع ہونا شوہر کی نیت پر موقوف ہوتا ہے اگرچہ دلالتِ حال پائی جا رہی ہو اور قضاءً(قاضی کے نزدیک یا بیوی کے حق میں) بعض کنایات سے طلاق واقع ہونے کے لیے دلالتِ حال کا پایا جانا کافی ہوتا ہے اگرچہ شوہر نے طلاق کی نیت نہ کی ہو  کیونکہ طلاق کے معاملے میں بیوی کی حیثیت قاضی کی طرح ہوتی ہے۔لہذا مذکورہ صورت میں جب شوہر نے 6 سال قبل بیوی کو یہ کہا کہ”تم فارغ ہو میری طرف سے،تم میری طرف سے فارغ ہو،تم میری طرف سے فارغ ہو” تو چونکہ شوہر کی ان جملوں سے طلاق کی نیت نہیں تھی اس لیے ان جملوں سے شوہر کے حق میں کوئی طلاق واقع نہ ہوئی تھی اور نہ نکاح ختم ہوا تھا  اور اس کے بعد جب طلاق اول کے نوٹس پر دستخط کیے تو ایک رجعی طلاق ہوگئی جس کے بعد عدت کے اندر رجوع ہوگیا اور شوہر کے پاس دو طلاقوں کا حق باقی رہا پھر شوہر نے بیوی کو یہ جملہ کہا کہ”جا اپنے باپ سے طلاق کے پیپر لے ” چونکہ اس سے بھی شوہر کی طلاق کی نیت نہ تھی اس لیے اس جملہ سے بھی شوہر کے حق میں مزید کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی اس کے بعد جب شوہر نے بیوی کو تین طلاقیں دیں تو چونکہ شوہر کے حق میں نکاح قائم ہونے کی وجہ سے طلاق کا محل باقی تھا اس لیے تینوں طلاقیں واقع ہو گئیں۔

در مختار مع حاشیہ ابن عابدین (4/516) میں ہے:

باب الكنايات (كنايته) عند الفقهاء (ما لم يوضع له) أي الطلاق (واحتمله) وغيره (ف) الكنايات (لا تطلق بها) قضاء (إلا بنية أو دلالة الحال) وهي حالة مذاكرة الطلاق أو الغضب

قوله: (قضاء) قيد به لأنه لا يقع ديانة بدون النية ولو وجدت دلالة الحال، فوقوعه بواحد من النية أو دلالة الحال إنما هو في القضاء فقط كما هو صريح البحر وغيره

در مختار مع حاشیہ ابن عابدین (4/509) میں ہے:

[فروع] كرر لفظ الطلاق وقع الكل

قوله: (كرر لفظ الطلاق) بأن قال للمدخولة: أنت طالق أنت طالق أو قد طلقتك قد طلقتك أو أنت طالق قد طلقتك أو أنت طالق وأنت طالق

بدائع الصنائع (3/295) میں ہے:

وأما الطلقات الثلاث فحكمها الأصلي هو زوال الملك وزوال حل المحلية أيضا حتى لا يجوز له نكاحها قبل التزوج بزوج آخر لقوله عز وجل {فإن طلقها فلا تحل له من بعد حتى تنكح زوجا غيره}

درمختار مع ردالمحتار (419/4) میں ہے:

(ومحله المنكوحة)

(قوله ومحله المنكوحة) أي ولو معتدة عن طلاق رجعي أو بائن غير ثلاث في حرة.

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم               

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved