• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

’’تم میرے کاغذوں میں فارغ ہو‘‘

استفتاء

محترم مفتی صاحب!

کیا فرماتے ہیں مفتی حضرات اس مسئلے کے بارے میں کہ میں اپنی بیوی کو ایک دو مرتبہ یہ کہا کہ ’’تم میرے کاغذوں میں فارغ ہو جاؤ، اپنے گھر چلی جاؤ، تم میری بات نہیں مانتی تمہارا کیا فائدہ‘‘۔ پھر جب کچھ عرصہ بعد میں نے بیوی کو پھر پاس بلوایا وہ پھر نہیں آئی، میں نے پھر اسے یہ کہا کہ ’’تمہارا کیا فائدہ، جاؤ اپنے گھر چلی جاؤ‘‘ جب اسے میں یہ بات کہتا وہ میرے پاس آجاتی، لہذا مذکورہ الفاظ کہتے وقت میری نیت طلاق کی نہیں ہوتی تھی بلکہ اسے ڈرانے کے لیے یہ الفاظ استعمال کرتا تھا، لہذان الفاظ سے بیوی کو طلاق ہو گئی ہے یا نہیں؟ اگر ہو گئی ہے تو پھر دوبارہ رجوع کی کوئی صورت ہے؟ جواب سے نوازیں

بیوی کا بیان

’’تم میرے کاغذوں میں فارغ ہو‘‘ یہ بات میرے علم میں  نہیں ہے۔ البتہ کبھی کبھی یہ بات کہتے رہتے ہیں کہ ’’تم میری بات نہیں مانتی، تمہارا کیا فائدہ، جاؤ اپنے گھر چلی جاؤ‘‘۔

وضاحت: شوہر کا بیان ہے کہ اس نے یہ الفاظ کہ ’’تم میرے کاغذوں میں فارغ ہو‘‘ نارمل حالت میں بطور مزاح کہے ہیں۔ اور بیوی کا بیان ہے کہ اسے یہ الفاظ کہ ’’تم میرے کاغذوں میں فارغ ہو‘‘ سننا یاد نہیں، البتہ غصے میں کبھی کبھی ’’تمہارا کیا فائدہ، جاؤ اپنے گھر چلی جاؤ‘‘ کہتے رہتے تھے۔ لیکن ان کے انداز سے طلاق مراد نہیں ہوتی تھی بلکہ مطلب یہ ہوتا تھا کہ اپنے گھر چلی جاؤ تاکہ مجھے کچھ سکون ہو، اس لیے کہ وہ کبھی کبھی یوں بھی کہتے تھے کہ ’’جاؤ اپنے گھر چلی جاؤ، دو تین مہینے بعد آجانا‘‘

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں ایک  طلاق بائنہ واقع ہو چکی ہے، جس کی وجہ سے نکاح ختم ہو چکا ہے، میاں بیوی اکٹھے رہنا چاہیں تو کم از کم دو گواہوں کی موجودگی میں نیا مہر مقرر کر کے دوبارہ نکاح کرنا ضروری ہے۔

نوٹ: طلاق کے الفاظ کے بعد اب تک میاں بیوی اکٹھے رہتے رہے اس پر توبہ و استغفار کریں۔

توجیہ: شوہر کے یہ الفاظ کہ ’’تم میرے کاغذوں میں فارغ ہو‘‘ کنایہ الفاظ کی تیسری قسم میں سے ہیں (کذا فی احسن الفتاویٰ: 5/ 188)۔ تیسری قسم کے الفاظ اگر غصہ کی حالت میں کہے جائیں تو ان سے قضاء ً طلاق واقع ہو جاتی ہے۔

مذکورہ صورت میں اگرچہ شوہر کا کہنا یہ ہے کہ اس نے یہ الفاظ نارمل حالت میں کہے ہیں، لیکن بیوی کے بقول شوہر کی حالت غصے کی تھی، غصے کی حالت ہونے کے بارے میں بیوی کا قول معتبر ہو گا  ’’لانہا کالقاضی‘‘۔ لہذا اگرچہ بیوی کو یہ الفاظ کہنا یاد نہیں، لیکن چونکہ ان الفاظ کے کہنے کا شوہر خود اقرار کر رہا ہے اس لیے بیوی کو یاد نہ ہونے سے مذکورہ صورت میں کچھ فرق نہ پڑے گا۔

لما فی الدر (4/ 516- 519)

فالحالات ثلاثة: رضاً وغضب و مذاكرة، و الكنايات ثلاث: ما يحتمل الرد أو ما يصلح للسب، أو لا ولا … ففي حالة الرضا تتوقف الأقسام الثلاثة تأثيراً (على النية و في الغضب) توقف (الأولان) إن نوى وقع و إلا لا. و قال ابن عابدين : و الحاصل أن الأول يتوقف على النية في حالة الرضا و الغضب و المذاكرة، و الثاني في حالة الرضا و الغضب فقط و يقع في حالة المذاكرة بلا نية، و الثالث يتوقف عليها في حالة الرضا فقط و يقع في حالة الغضب و المذاكرة بلا نية.

و في الرد أيضا (4/ 449):

والمرأة كالقاضي إذا سمعته أو أخبرها عدل لا يحل لها تمكينه.

و في الدر المختار (4/ 528-531)

(الصريح يلحق و البائن، و البائن يلحق الصريح لا البائن) …….. فقط و الله تعالى أعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved