• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

"تم میری طرف سے آزاد ہو” ،”فارغ ہو” الفاظ سے طلاق کا حکم

استفتاء

شادی کے شروع میں یعنی سات  آٹھ سال پہلے میری اور میرے میاں کے درمیان بحث کی طرح لڑائی ہوئی جو ختم ہو گئی ۔اس کے بعد میں وضو کرکے نماز پڑھنے چلی گئی اور وہ بھی واش روم چلے گئے تھوڑی دیر بعد وہ گھر سے باہر چالے گئے تو مجھے کہا ’’میری طرف سے تم  آزادہو ‘‘بعد میں جب میں نے پوچھا تو میاں نے جواب دیا کہ میری طرف سے تم گھر کے تصرفات میں  آزاد ہو جہاں چاہو جائو جہاں چاہو  آئو ،اور گھر میں جو کچھ مرضی کرو ۔مفتی صاحب اس واقعہ کے وقت نہ میری طرف سے مطالبہ طلاق تھا اور نہ میرے شوہر غصے میں تھے ۔ہم نے صرف ایک دفعہ نکاح دوبارہ کیا،وہ بھی اب سے دو مہینے پہلے ۔شادی کے اتنے عرصے ہم نے کبھی بھی کوئی نکاح نہیں کیا ۔

مفتی صاحب !  آج سے ڈھائی مہینے پہلے ہوا کچھ یوں تھا کہ میری اور میرے میاں میں کسی بات میں لڑائی ہوئی جو ناراضگی کی صورت میں ختم ہوگئی ۔میرے میاں جا کر سو گئے تھوڑی دیر میں جب وہ اٹھے تو مجھے منانے لگے بار بار کہہ رہے تھے چلو چھوڑو،چلو چھوڑولیکن میں غصے میں تھی وہ بار بار میرا ہاتھ پکڑتے میں ان کو پیچھے کردیتی ۔اس طرح کافی دیر تک ہو تا رہا میں کسی طرح مان نہیں رہی تھی وہ بار بار ہنس کرمجھے منا رہے تھے میں نے ان سے بدتمیزی کی جس پر وہ بیڈ سے اٹھے اور کہا نہ مانو میں بھی اب نہیں مانوگا۔وہ واش روم کی طرف گئے میں نے اٹھ کر ان کو کھینچا کہ  آپ نے میرے سے لڑائی کیوں کی تھی انہوں نے مجھے پیچھے کرتے ہوئے بیڈ پر پھینکا ہمارا بیڈ بالکل واش روم کے ساتھ ہے میں نے پھر اٹھ کر ان کو کھینچا جس سے وہ میرے ساتھ بیڈ پر  آئے اور اپنی نارمل  آواز میں کہاکہ’’ تم میری طرف سے فارغ ہو ‘‘پھر وہ نماز پڑھنے چلے گئے نماز پڑھ کر  آئے تو میں نے ان سے کہا  آ پ کو پتا ہے کہ  آپ نے کیا کہا ہے ؟انہوں نے کہا کہ میرا کوئی غلط مطلب نہیں تھا میرا مطلب تھا کہ تم اس گھر میں میرے تمام کام کرنے سے فارغ ہو اس سے پہلے بھی مفتی صاحب ہماری دس سال کی شادی میں جب وہ کسی بات پر بھی مجھ سے ناراض ہوتے تو اسی طرح مجھ سے کہتے کہ’’ میرا تم نے کوئی کام نہیں کرنا میرا کھانا نہیں پکانا وغیرہ  اس وقت انہوں نے کہا میرا ان الفاظ سے بھی یہی مطلب تھا کہ تم اس گھر میں میرے کام کرنے سے فارغ ہو ،اپنے اور اپنے بچوں کے لیے جو کچھ مرضی کرو میرا کوئی کام نہیں کرنا ۔اور میں غصے میں نہیں تھا ۔

مفتی صاحب ! اس بات پر میں بھی  آپ کو بتائوں گی کہ جب میاں غصے میں ہوتے ہیں تو وہ اونچا بولتے ہیں چیزیں پھینکتے ہیں کبھی تھپڑ بھی لگا دیتے ہیں لیکن اس وقت ان کی حالت ناراضگی والی تھی نہ اونچا بولے ہیں اور نہ کوئی ایسی چیز کی ۔میری اس واقعہ پر ان سے بعد میں بات ہوئی تو انہوں نے چھ سات دفعہ حلفیا کا لفظ استعمال کر کے کہا کہ میں حلفیہ کہتا ہوں کہ نہ میرا طلاق جیسا کوئی مطلب تھا اور نہ میں غصے میں تھا اگر میں غصے میں ہوتا تو دو چار تھپڑ لگا دیتا ۔دوبارہ میں نے ان سے اگلے دن بات کی تو انہوں نے دو دفعہ کہا کہ میں اللہ کو حاضر ناظر جان کر کہتا ہوں کہ نہ میری کوئی غلط نیت تھی اور نہ ہی میں غصے میں تھا میں نے ان سے اصرار کیا کہ  آپ یہ بات لکھ کر اس پر دستخط کریں کہ میں اللہ کو حاضر ناظر جان کر کہہ رہا ہوں کہ میرا کوئی غلط مطلب نہیں تھا اور نہ میں غصے میں تھا میں نے ایک کاغذ پر یہ لکھا اور انہوں نے اس دستخط کیے ۔یہ کاغذ بھی اس کاغذ کے ساتھ لگا رہی ہوںمیں نے اللہ کو حاضر ناظر جان کر بھی لکھا تھا جس پر دستخط کرتے ہوئے انہوں نے (اللہ کو )لفظ کاٹ دیا اور کہا کہ میں نے دو دفعہ اپنے منہ سے کہہ دیا ہے کہ میں اللہ کو حاضر ناظر جان کر کہہ رہا ہوں لیکن لکھنے میں نہ لکھو ۔مفتی صاحب ہم نے اس مسئلے کے ہوتے ہی دو گواہوں کے سامنے ایجاب وقبول کرلیا تھا ۔ آپ مجھے یہ بتا دیں کہ کیا ایک طلاق واقع ہوئی یا نہیں ؟اس مسئلے کے علاوہ کبھی مفتی صاحب ہماری کوئی بحث ہو جائے یا لڑائی ہو جائے تو دو یا تین مرتبہ میرے میاں نے مجھے سے پوچھا تو پھر ختم کرتے ہیں اس رشتے کو وغیرہ میری طرف سے کبھی بھی کوئی مطالبہ طلاق نہیں ہوا اور نہ ہی میرے میاں کی طرف سے ایسے کسی موقع پر طلاق کا لفظ نکلا ۔

۳۔             مفتی صاحب !کبھی ایک دفعہ میرے میاں نے لڑائی ختم ہونے کے بعد یہ کہا ’’میری تمہاری ختم‘‘ میں نے پوچھا تو کہا ختم کچھ بھی ہو سکتا ہے ضروری نہیں میرا ہر بار طلاق کا ہی مطلب ہو ۔لڑائی ختم ہونا بھی مطلب ہو سکتا ہے ایک دفعہ لڑائی کے درمیان میرے میاں نے کہا تجھے طلاق دے دوں گا ایک دفعہ پوچھا بتا ’’تجھے طلاق دے دوں‘‘ میں نے کہا مرضی ہے تو خاموش ہو گئے۔یہ الفاظ ’’تم نے تنگ کیا ہوا ہے تم سے بہت تنگ ہوں نہیں رہنا تو نہ رہو میرے ساتھ مجھے لگتا ہے کہ تم میرے ساتھ رہنا نہیں چاہتی کہیں اور کسی سے نکاح کرنا چاہتی ہو وغیرہ‘‘

۴۔            ایک دو دفعہ لڑائی کے دور ان میرے میاںنے کہا ’’تجھے طلاق دے دوں گا‘‘

۵۔            ایک دفعہ پوچھا ’’کیا تجھے دے دو ں؟‘‘میں نے کہامرضی ہے ۔تو خاموش ہو گئے ۔

۶۔ یہ الفاظ تم’’ نے تنگ کیا ہوا ہے‘تم سے بہت تنگ ہوں ،نہیں رہنا تو نہ رہو میرے ساتھ ،مجھے لگتا ہے تم میرے ساتھ رہنا نہیں چاہتی کہیں اور کسی سے نکاح کرناچاہتی ہو ‘‘وغیرہ

ان الفاظ سے تو کوئی مسئلہ نہیں ہے ،میرے میاں ہمشیہ کہتے ہیں میری ایسی کوئی غلط نیت کبھی بھی نہیں ہوتی ،اور میری طرف سے بھی کبھی مطالبہ طلاق نہیں ہوتا ۔

ایک مرتبہ مسائل طلاق پر بات ہورہی تھی کہ یہ اتنا نازک مسئلہ ہوتا ہے کہ اگر بیوی طلاق کا مطالبہ کررہی ہو اور میاں ہاں ہی کہہ دے تو طلاق ہو جاتی ہے چاہے شوہر کی مرضی ہو یا نہیں ۔اس پر میرے شوہر نے جواب دیا تم نے مانگی تو میں نے دی میں نے پوچھا کیا ؟بولے اگر تم یا کوئی لڑکی مانگے گی تو گہنگار کون ہو گا ؟میں نے کہا بیوی تو بولے !میری کبھی بھی کوئی ایسی نیت نہیں ہوتی اس کا مطلب اس میں میں گنہگار نہیں ہوں ۔اور کہا ابھی تو نہ ایسی کوئی بات ہے نہ میری نیت ہے تم بار بار ایسی باتیں کروگی تو اس رشتے کو خراب کروگی ۔

شوہر کا بیان:

ان تمام مسائل میں میری نیت طلاق کی نہیں تھی میری اہلیہ نے جو تحریر لکھی ہے میں اس سے متفق ہوں ۔شکریہ

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

’’میری طرف سے تم  آزاد ہو ‘‘ ’’ تم میری طرف سے فارغ ہو‘‘ کے الفاظ کنایات طلاق کی تیسری قسم میں سے ہیں ،یہ الفاظ اگر نارمل حالت میں کہے جائیں تو ان سے طلاق کی نیت کے بغیر طلاق نہیں ہوتی اگر لڑائی جھگڑے اور غصے میں یا طلاق کے مطالبہ کے وقت کہے جائیں تو ان سے ایک بائنہ طلاق واقع ہو جاتی ہے ،خواہ شوہر کی طلاق کی نیت ہو یا نہ ہو جس کی وجہ سے نکاح ختم ہو جاتا ہے اور  آئندہ کے لیے میاں بیوی کی طرح رہنے کی لیے نیا نکاح کرنا ضروری ہوتا ہے ۔شوہر نے مذکورہ الفاظ جس پس منظر میں کہے ہیں ور پس نارمل حالت کا نہیں بلکہ لڑائی جھگڑے اور غصے کا ہے لہذا مذکورہ الفاظ کہنے سے ایک بائنہ طلاق ہو گئی تھی اور نکاح ختم ہو گیا تھا اس کے بعد چونکہ نیا نکاح کرلیا ہے اس لیے اب میاں بیوی کی طرح رہنے میں کچھ حرج نہیں ۔تاہم جتنا عرصہ نکاح کے بغیر میاں بیوی کی طرح رہے اس پر توبہ واستغفار کریں اور  آئندہ اس طرح الفاظ کہنے سے احتیاط کریں ۔۔

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved