• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

"تم میری طرف سے آزاد ہو کہنے سے طلاق کا حکم”

استفتاء

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

کیا فرماتے ہیں علمائے دین کہ میاں اور بیوی میں ناراضگی چل رہی تھی لڑکی اپنے والدین کے گھر رہتی ہے اور لڑکا بیرون ملک مقیم ہے اس دوران میاں نے لڑکی کے گھر والے موبائل نمبر پر لڑکی کا نام لے کرtext message (تحریری پیغام) بھیجا کہ تم میری طرف سے آزاد ہو یہ ایک فقرہ ایک ہی میسج میں تین مرتبہ دہرایا گیا۔ اس کے بعد ایک اور موقع پر خاوند نے موبائل پر کال کی اور لڑکی کو علیحدہ ہونے کا کہا جب وہ الگ ہوئی تو پہلا فقرہ سمجھ میں نہ آیا جبکہ دوسرے فقرے میں جب طلاق کا لفظ سنا تو لڑکی کے ہاتھ سے ڈر کے مارے موبائل چھوٹ گیا اور کال ڈراپ ہوگئی پھر لڑکے کے ایک جاننے والے نے اس سے پوچھا کہ تم نے آزاد کا لفظ کیوں کہا تو اس نے یہ مؤقف دیا کہ جب ہم گھر میں خوش وخرم تھے تو اس دوران بیوی مجھ سے دو دن کا کہہ کر رشتہ داروں کے پاس گئی تھی مگر یہ تین دن رہ کر آئی تو میں نے اس مد میں کہا کہ اب وہ آزاد ہے جہاں مرضی رہے یا جائے ۔

اب ان تمام تر واقعات کے بعد رشتہ ازواج  برقرار رہے گا کیا؟

وضاحت مطلوب ہے کہ :(1)سائل کون ہے  ؟ لڑکی کا سرپرست ہے کیا؟ لڑکے کا اپنا مؤقف کیا ہے؟لڑکے کا نمبرکیا ہے؟(2)”تم میری طرف سے آزاد ہو "یہ الفاظ بولتے وقت طلاق کی نیت تھی یا نہیں؟(3 ) دوسرے فقرے میں طلاق کا لفظ سنا  اس میں اصلا لفظ کیا استعمال کئے تھے؟

جواب وضاحت :(1) سائل لڑکی کا بھائی ہے۔

(2) لڑکے سے رابطہ کیا تو وہ کہتا ہے کہ حضرت ڈرانا مقصود تھا طلاق کی نیت نہیں تھی۔(3)مکمل الفاظ یہ استعمال کئے تھے میری طرف سے طلاق ہے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں ایک طلاق رجعی واقع ہوگئی ہے جس کا حکم یہ ہے کہ عدت گذرنے سے پہلے رجوع کر سکتے ہیں۔ اور اگر رجوع کرنے سے پہلے  عدت گذر جائے تو پھر بھی آپس کی رضا مندی سے دو گواہوں کی موجودگی میں نیا نکاح کر کے اکٹھے رہ سکتے ہیں۔

توجیہ : شوہر کا میسج میں یہ لکھنا کہ "تم میری طرف سے آزاد ہو” طلاق مستبین غیر مرسوم ہے، جس سے شوہر طلاق دینے کی نیت کا اقرار کرے تو طلاق ہوتی ہے ورنہ نہیں، چونکہ شوہر اس لفظ سے طلاق کی نیت تسلیم نہیں کرتا، لہذا اس لفظ سے طلاق واقع نہیں ہوئی۔

اس کے بعد شوہر کا زبان سے ٹیلی فون پر یہ کہنا کہ "میری طرف سے طلاق ہے” چونکہ طلاق صریح ہے لہذا ان الفاظ سے ایک طلاق رجعی واقع ہو گئی ہے۔

شامی(4/442)میں ہے:

الكتابة على نوعين: مرسومة، وغير مرسومة.

ونعني بالمرسومة أن يكون مصدرا ومعنونا مثل ما يكتب إلى الغائب، وغير المرسومة أن لا يكون مصدرا ومعنونا، وهو على وجهين: مستبينة، وغير مستبينة فالمستبينة ما يكتب على الصحيفة والحائط والارض على وجه يمكن فهمه وقراءته، وغير المستبينة ما يكتب على الهواء والماء وشئ لا يمكن فهمه وقراءته، ففي غير المستبينة لا يقع الطلاق وإن نوى، وإن كانت مستبينة لكنها غير مرسومة إن نوى الطلاق يقع، وإلا لا، وإن كانت مرسومة يقع الطلاق نوى أو لم ينو.

شامی (4/448)میں ہے:

ان الصريح لا يحتاج الى النية

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved