• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

’’ تمہارا جہاں جی چاہتاہے وہاں چلی جاؤ، جاؤ، جاؤ‘‘کہنے کاحکم

استفتاء

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ہم میاں بیوی جوائنٹ فیملی میں رہتے ہیں، گزشتہ رات ہم میاں بیوی میں ایک پانی پینے کے برتن پر جھگڑا ہو گیا،وہ برتن کافی عرصہ سے استعمال نہیں ہو رہا تھا اور ایک ایسی جگہ پڑا تھا جہاں چوہے بلی یا چھپکلی کا گزر ہو سکتا ہے، اس برتن کو میری بیوی نے نکالا اور کام والی سے دھلوا کر استعمال میں لے آئی،جس پر میں نے کہا کہ اگر اسے استعمال ہی کرنا تھا تو خود دھو لیتی،کام والی سے کیوں دھلوایا، میری بیوی نے کہا میرا حوصلہ ہے کہ میں اس گھر میں رہ رہی ہوں جہاں چوہے، بلی اور چھپکلیاں ہیں، میں نے کہا کہ "میں الگ گھر نہیں لے سکتا، تمہارا جہاں جی چاہتاہے وہاں چلی جاؤ، جاؤ، جاؤ” میں نے کئی مرتبہ کہا، میری بیوی نے کہا کہ "مجھے لکھ کر دے دیں (کہ آپ مجھے کہہ رہے ہیں جاؤ، میں کیوں جاؤں یہ لکھ کر دیں) (یہ جملہ بیوی نے لکھا ہے) میں نے کہا کہ میں لکھ کر نہیں دوں گا۔ پھر تھوڑی دیر باتیں ہوئیں لیکن آنے جانے کی بات اتنی ہی ہوئی جو میں نے لکھ دی ہے، میں اس  رات غصے سے اپنے بستر پر نہیں سویا، راہنمائی فرما دیں کہ ہمارا میاں بیوی کا رشتہ قائم ہے یا خدانخواستہ طلاق ہوگئی ہے؟

وضاحت مطلوب ہے کہ :

مذکورہ الفاظ آپ نے کس حالت میں بولے تھے؟ آپ کی نیت کیا تھی؟

جواب وضاحت: میں نے غصے میں یہ الفاظ بولے تھے۔ میری طلاق کی نیت نہیں تھی، جھگڑے کی وجہ سے بچے پریشان ہو رہے تھے تو بیوی کو چپ کرانے کے لیے یہ الفاظ بولے تھے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں شوہر کے حق میں تو کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی، کیونکہ شوہر کا یہ جملہ کہ ’’جہاں جی چاہتا ہے وہاں چلی جاؤ‘‘ کنایات طلاق کی پہلی قسم میں سے ہے، جس سے شوہر کے حق میں طلاق کا وقوع ہر حال میں نیت پر موقوف ہوتا ہے۔ باقی رہی بات بیوی کی؟ تو اگر شوہر طلاق کی نیت نہ ہونے پر قسم دیدے تو بیوی کے حق میں بھی طلاق واقع نہ ہو گی اور اگر شوہر قسم دینے سے انکار کرے تو بیوی اپنے حق میں ایک بائنہ طلاق سمجھے گی، جس کی وجہ سے بیوی کے لیے دوبارہ نکاح کئے بغیر اپنے شوہر کے ساتھ رہنا جائز نہ ہو گا۔ ہاں دوبارہ نکاح کر کے رہ سکتے ہیں۔

فتاوی محمودیہ (12/554) میں ہے:

سوال: ایک شخص مسمی رسول میاں ولد ظہور میاں اپنی عورت مسماۃ نظیراً کو اپنے مکان سے غریب میاں چوہدری رحیم بخش وغیرہم گواہان کے سامنے اس کے سارے زیور نکال کر اس کے میکے لے کر آیا اور کہلایا کہ ” ہم سے اس سے کوئی مطلب نہیں، اس کی طبیعت جہاں چاہے جائے، ہم سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔( کیا ان الفاظ سے طلاق ہوگئی؟ )

الجواب: الفاظ مذکور کنایات طلاق سے ہیں، پس اگر ان الفاظ سے طلاق کی نیت کی ہے تو طلاق بائن واقع ہو گئی ہے۔۔

وفي الفتاوى لم يبق بيني وبينك عمل ونوى يقع كذا في العتابية………..

ولو قال لها اذهبي أي طريق شئت لا يقع بدون النية وإن كان في حال مذاكرة الطلاق.(عالمگیری: 1/376)

فتاوی شامی (4/521) میں ہے:

والحاصل أن الأول يتوقف على النية في حالة الرضا والغضب والمذاكرة.

درمختار (4/521)میں ہے:

والقول له بيمينه في عدم النية ويکفي تحليفها في منزله فان ابي رفعته للحاکم فان نکل فرق بينهما

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved