• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

وراثت اور وصیت کے چند احکام

استفتاء

مفتیان کرام سے ایک شرعی مسئلہ کے بارے رہنمائی درکار ہے۔

  1. میرے دادا کے بھائی***صاحب کا فروری 2022 میں انتقال ہو گیاتھا.ان کے ماں باپ فوت ہو چکے ہیں، اولاد کوئی نہیں ہے، بیوی فوت ہو چکی ہے ،بھائی اور 2 بہنیں بھی فوت ہو چکی ہیں ،البتہ بھائیوں اور بہنوں کی مذکر اور مؤنث اولاد موجود ہے.بڑے بھائی کی مذکر اولاد میں،انعام، ***، ***،چھوٹے بھائی کی مذکر اولاد میں،***، ***،***حیات ہیں.پہلا سوال یہ ہے کہ ان کے ورثاء کون کون بنیں گے جن میں ان کا ترکہ تقسیم ہوگا اور کتنا کتنا تقسیم ہوگا؟
  2. دوسرا سوال یہ ہے کہ میت کے ترکہ میں بغیر سلے سوٹ، کپڑے، بستر، برتن چارپائی، زمین، نقدی موجود ہے، اس کی تقسیم کیسے ہوگی؟
  3. تیسرا سوال یہ ہے کہ ان کا ایک بھتیجا ***کہتا ہے کہ میرے تایا (***) نے یہ کہا تھا کہ "میں اپنی زمین بیچ کر تیرا گھر بناؤں گا اور باقی ماندہ رقم سے کاروبار کروں گا” اب ***چاہتا ہے اس بات پر عمل ہو اور میرا گھر بنوا کے دیا جائے۔.ہم جاننا چاہتے ہیں کہ ***کی اس بات کی کیا حیثیت ہے؟ جبکہ باقی بھتیجے اس بات کو کوئی حیثیت نہیں دیتے،باقی بھتیجوں کے بیانات درج ذیل ہیں۔
  4. نہیں ہم ایسا نہیں چاہتے، جس کا جو حصہ ہے وہ دیا جائے۔
  5. ہم نے کبھی بھی اپنے چچا سے ایسا نہیں سنا اور نہ ہی وہ ایسا معاملہ کرنے والے تھے۔
  6. یہ غلط بات ہے، ہمارے سامنے نہیں کہی حالانکہ اگر ایک آدمی اپنے ترکےمیں سے مسجد بنانے کی وصیت کر دے وہ قابل قبول نہیں ہوتی تو یہ بات کیسے قبول کی جا سکتی ہے؟ سب ورثاء کو ان كا برابر حصہ دیا جائے۔
  7. ایک بھتیجا یہ کہتا ہے کہ میرے سامنے چچا نے ایسی بات کہی ضرور تھی لیکن میں چاہتا ہوں جس وارث کا شرعی طور پر جو حق بنتا ہے اسکو وہ دیا جائے۔
  8. مجھے یہ بات تایا نے نہیں کہی جس کا جو حصہ بنتا ہے اسے وہی ملنا چاہیےجزاکم اللہ خیرا

    الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

1۔مذكوره صورت میں مرحوم م*** کے ورثاء ان  کے بھتیجے(1) انعام (2) ***(3) ***(4)***(5) ***(6)*** ہوں گےاور ان کا ترکہ ان میں  برابر تقسیم ہوگا۔

2۔ان میں سے جو چیزیں تقسیم ہوسکتی ہیں مثلاً نقدی، زمین ان کو برابر تقسیم کرلیا جائے اور جو تقسیم نہیں ہوسکتیں انہیں بیچ دیا جائے اور قیمت کو برابر تقسیم کرلیا جائے۔

3۔ مذکورہ صورت میں محمداسلام نے جو یہ کہا تھا کہ ’’ میں اپنی زمین بیچ کر تیرا گھر بناؤں گا اور باقی ماندہ رقم سے کاروبار کروں گا ‘‘ اس میں صرف ارادے کا اظہار ہے جس  سےملکیت یا وصیت ثابت نہیں ہوتی لہٰذا ***کا مطالبہ درست نہیں کہ اس پر عمل کیا جائے۔

حاشیہ ابن عابدین (10/550)میں ہے:

 (يحوز العصبة بنفسه وهو كل ذكر) فالأنثى لا تكون عصبة بنفسها بل بغيرها أو مع غيرها (لم يدخل في نسبته إلى الميت أنثى) فإن دخلت لم يكن عصبة كولد الأم فإنه ذو فرض وكأبي الأم وابن البنت فإنهما من ذوي الأرحام (ما أبقت الفرائض) أي جنسها (وعند الانفراد يحوز جميع المال) بجهة واحدة۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved