• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

زبردستی طلاق لینے کاحکم

استفتاء

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

مورخہ پانچ جولائی بروز جمعرات میری اپنی بیوی قرۃالعین کے ساتھ زبانی توں تراک ہوئی اور اس نے کہا مجھے طلاق چاہیے میں نے کہا کہ میں طلاق نہیں دوں گا مگر اس نے اپنے بھائی اور والدہ کو بلا لیا اور مجھ سے طلاق کا مطالبہ کرتی رہی مگر میں نے کہا کہ میں  طلاق نہیں دوں گا مگر اس نے زبردستی اپنے  بھائی کو شامل کر کے مجھ سے کہا کہ مجھے طلاق دو ورنہ میں اپنے بھائی سے تجھے زدوکوب کرائوں گی اس سارے قصے میں رات کے تقریبا ڈھائی بج گئے اور اس کے بھائی نے زبردستی طلاق کے الفاظ ادا کروائے۔پہلے میں نے صرف اتنا کہا ’’طلاق‘‘مگر اس کے بھائی نے کہا کہ ایسے نہیں کہنا بلکہ یوں کہو کہ’’ میں اپنی بیوی قرۃ العین کو طلاق دیتا ہوں ‘‘یہ جملہ صرف ایک مرتبہ کہا تھا ۔اب سوال یہ ہے:

۱۔ کہ زبردستی کی طلاق ہو چکی ہے ؟

۲۔ رجوع کا کیا طریقہ کار ہے؟

۳۔            میں نے طلاق دینے پر حق مہر ایک لاکھ ادا کرنا ہے

۴۔            میرے دونوں بچے بھی جن کی عمربالترتیب پندرہ سال اور چھ سال ہے انہوں نے یرغمال بنائے ہوئے ہیں اور کہتے ہیں کہ تم سے عدالت میں جا کر ان بچوں کی پیدائش سے لے کر اب تک کا ساراخرچہ بھی لیں گے۔

وضاحت مطلوب ہے :

۱۔ خاوند کی ان الفاظ سے نیت کیا تھی ؟

۲۔ اور پہلا لفظ کس نیت سے بولا تھا ؟کیا اپنی بیوی کو ذہن میں رکھ کربولا تھا ؟

جواب وضاحت:

۱۔ صرف ’’طلاق ‘‘کا لفظ میں نے اس ا رادے سے بولا تھا کہ بیوی سمجھے کہ طلاق ہو گئی ہے جبکہ میرا ارادہ طلاق کا نہیں تھا۔

۲۔ دوسرا لفظ طلاق کی نیت سے بولا تھا ۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

زبردستی کی طلاق اگر زبان سے ہو تووہ طلاق ہو جاتی ہے اس لیے مذکورہ صورت میں طلاق ہو گئی ہے۔ عدت گذرنے سے پہلے پہلے آپس میں رجوع ہوسکتا ہے اور اگرزبانی یا عملی بغیر رجوع کیئے عدت گذر چکی ہو تو آپس کی رضامندی سے دو گواہوں کی موجودگی میں نئے مہر کے ساتھ دوبارہ نکاح کرکے اکٹھے رہ سکتے ہیں ۔تاہم مذکورہ صورت میں ایک طلاق ہوئی ہے یا دو ؟ اس میں ترد ہے ہمارے دارالافتاء کے اکثر ساتھیوں کی رائے یہ ہے کہ ایک ہوئی ہے کیونکہ مذکورہ صورت میں پہلی مرتبہ کہا گیا طلاق کا لفظ نامکمل ہے یعنی اس میں اس کی وضاحت نہیں کہ کون کس کو طلاق دے رہا ہے اگرچہ عام حالات میں اس وضاحت کی ضرورت نہیں ہوتی کیونکہ شادی شدہ شخص عموماً اپنی بیوی ہی کو طلاق دیتا ہے لیکن زبر دستی کی حالت میں اس وضاحت کے بغیر طلاق کا حکم لگانا مشکل ہے بالخصوص جبکہ شوہر کی نیت بھی طلاق دینے کی نہ ہو بلکہ وہ محض جان چھڑانے کے لیے ایسا گول مول لفظ استعمال کرے ۔لہذا پہلے لفظ سے کوئی طلاق نہ ہوئی البتہ دوسرا لفظ (یعنی میں اپنی بیوی قرۃ العین کو طلاق دیتا ہوں )واضح بھی ہے اور طلاق کی نیت سے بھی کہا ہے اس لیے اس سے صرف ایک طلاق ہوئی۔سائل کو چاہیے کہ وہ دوسرے اہل علم سے بھی اس بات پر رائے لے لے کہ مذکورہ صورت میں ایک طلاق ہوئی یا دو؟

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved