• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

ذہنی مریض کی طلاق کا حکم

استفتاء

میرے بیٹے *** *** نے اپنی پڑھائی کے لیے کوئی دوائی استعمال کی تھی، جس کا مقصد یہ تھا کہ وہ اپنی پڑھائی پر پوری توجہ سے دھیان دے سکے، لیکن اس نے دوائی مقدار سے زیادہ لے لی جس کی وجہ سے اس کے دماغ پر بُرا اثر پڑا، لیکن اس حد تک بد حواس بھی نہیں تھا کہ اس کو رشتوں کی پہچان نہ ہو، وہ سب کچھ جانتا تھا، کہ یہ میری ماں ہے اور وہ میری بہن اور فلاں میری بیوی، لیکن دوائی زیادہ مقدار میں پینے کی وجہ سے ان کے دماغ میں طرح طرح کے وسوسے پیدا ہو گئے اور وہ ان وسوسوں کو حقیقت سمجھتا تھا اور وہ یہ گمان کرتا تھا کہ میرے باپ نے میرے پیچھے جاسوس لگائے ہیں، جو میرے ہر حرکت کو نوٹ کرتے ہیں، اسی شک میں اس نے گھر کی کافی چیزیں توڑ ڈالی، مثلاً موبائل فون، ٹی وی، بیٹریاں، اس کو یوں محسوس ہوتا تھا کہ اس کے کال بھی ٹریس ہوتے ہیں اور ٹی وی کمپیوٹر وغیرہ میں یعنی ہر طرف کیمرے لگے ہوئے ہیں، جو میری نگرانی ہو رہی ہے، اس وجہ سے یہ ساری چیزیں توڑ دیتا تھا، جب کبھی باہر جاتا تو واپسی پر شور مچاتا کہ ابو نے فلاں ٹیکسی ڈرائیور کو میرے پیچھے لگا دیا ہے، کبھی کہتا  لوگ میرے پاس بیٹھ کر میری باتیں نوٹ کر دیتے تھے تاکہ ان کے ابو کو بتا دے، کبھی کہتا کہ ابو نے میرے سگریٹ میں ڈرگ ملایا ہے لہذا  اس کو پھینک دو نئی لے آؤ۔ یعنی اس کے دماغ میں شک بھرا ہوتا تھا، اور وہ سگریٹ لینے کے لیے اپنی بیوی *** کو ہی بھیجتا تھا، یوں ہی اس نے ایک دن صبح کے وقت تقریباً چھ سات بجے کا ٹائم تھا اپنی بیوی کو  کہا کہ سگریٹ لے کر آؤ بازار سے، اس کی بیوی نے انکار کیا کہ صبح صبح اکیلی عورت کو باہر بھیجنا مناسب نہیں سمجھا، اس وقت شدید غصے کی حالت میں *** نے اپنی بیوی *** کو چار دفعہ طلاق دے دی، طلاق کے الفاظ بولتے وقت *** اگرچہ سامنے نہیں تھی مگر آواز اس کو صاف سنائی دی تھی، اس کے بعد *** اپنی نند عدیلہ کے گھر گئی، وہاں جا کر ایک عالم سے رابطہ کیا اور ان کو گھر بلایا وہ عالم امام مسجد ہیں، اس نے ساری بات سن کر فیصلہ دیا کہ *** نے جو چار دفعہ کہا ہے وہ ایک دفعہ ہی شمار ہوں گی، اور اگر تین ماہ کے اندر دوبارہ طلاق دی تو دو شمار ہوں گی، اس کے بعد *** استغفار کے نوافل ادا کیے، اس کے بعد *** اور اس کی بیوی اکٹھے رہنے ہیں اور اس وقت *** امید سے ہیں ساتواں مہینہ چل رہا ہے۔

اس کے بعد بھی *** کے دماغ سے وہ وسوسے ختم نہیں ہوئے، وہ یہ کہتے رہے کہ سچ بتاؤ تم لوگوں نے میرے پیچھے کس کو لگا رکھا ہے، کبھی دیواروں پر لکھتا ہے کہ بتاؤ میرے پیچھے تم لوگوں نے کس کو لگایا ہے، اور غصے میں برتن وغیرہ توڑ دیتا تھا، اسی طرح غصے میں ایک دن پھر اس نے اپنی بیوی کو کہا کہ "تم آزاد ہو میری طرف سے” پھر ایک عالم سے مشورہ کیا تو اس نے کہا جب لڑکی امید سے ہو تو اس کو طلاق نہیں ہو سکتی۔ دوسری دفعہ جو کہا ہے وہ تین ماہ کے بعد کہا ہے۔ لہذا آپ ہماری رہنمائی فرمائیں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

جو صورت آپ نے اپنے بیٹے کی ذکر کی ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کا دماغی توازن درست نہیں، اگر یہ ساری صورتحال حقیقت پر مبنی ہے تو ایسی حالت میں دی گئی طلاق معتبر نہیں۔

باقی یہ کہ چار دفعہ دی گئی طلاق ایک شمار ہو گی، یا یہ کہ حالت حمل میں طلاق نہیں ہوتی، یہ باتیں درست نہیں۔

و لا يقع طلاق المولی علی امرأة عبده (و المجنون) قال في التلويح الجنون اختلال القوة المميزة بين أمور الحسنة و القبيحة المدركة للعواقب بأن لا تظهر آثارها و تتعطل أفعالها إما لنقصان جبل عليه دماغه في أصل الخلقة و إما لخروج مزاج الدماغ عن الاعتدال بسبب خلط أو آفة و إما لاستيلاء الشيطان عليه و إلقاء الخيالات الفاسدة إليه بحيث يفرح و يفزع من غير ما يصلح سبباً. اه و في البحر عن الخانية رجل عرف أنه كان مجنوناً فقالت له امرأته طلقتني البارحة فقال أصابني الجنون و لا يعرف ذلك إلا بقوله كان القول قوله. (رد المحتار: 4/ 437)

و البدعي ثلاث متفرقة و في الشامية قوله (ثلاث متفرقة) و كذا بكلمة واحدة بالأولی و عن الإمامية لا يقع بلفظ الثلاث …. و ذهب جمهور الصحابة و التابعين و من بعدهم من أئمة المسلمين إلی أنه يقع الثلاث. (رد المحتار: 4/ 423)

و حل طلاقهن أي الآيسة و الصغيرة و الحامل (عقب وطئ) لأن الكراهة فيمن تحيض لتوهم الحبل و هو مفقود هنا. (رد المحتار: 4/ 422) فقط و الله تعالی أعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved