• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

ذہنی تشدد کی بنیاد پر خلع لینے  کا حکم

استفتاء

ہماری شادی 2006ء میں ہوئی تھی، گذشتہ چودہ سالوں سے اپنے خاوند نعمان عادل کے ساتھ رہائش پذیر تھی، میں اس دوران خاوند کی  طرف سے کوئی خاص توجہ حاصل نہیں کرسکی جس کی وجہ ان کی طبیعت کی بے رُخی تھی، کسی بھی گھریلو معاملات میں صحیح طور پر توجہ نہ دیتے تھے اور اس کے علاوہ ازدواجی زندگی کی حقوق پورے کرنے سے وہ صحت کے اعتبار سے قاصر تھا۔ ان حالات اور اس کشمکش میں گذشتہ دس سال صبر اور تحمل سے گذارے لیکن اب میرے صبر کی انتہا ہو چکی ہے۔

اس لیے اب اس قدم کو اٹھایا ہے، اولاد کے لیے  جتنے علاج وغیرہ کروائے ان میں خاوند کی طرف سے کمی بتائی گئی مگر بہت اصرار کے باوجود کبھی بھی صحیح طور پر انہوں نے اپنا علاج نہیں کروایا ۔  جس کی وجہ ان کی لاپرواہی اور جسمانی کمزوری تھی اور وہ چاہتے تھے کہ ان باتوں کا کسی کو علم نہ ہو اور نہ کوئی ان سے اس موضوع پر بات کرے۔

میرے شوہر خرچہ وغیرہ دینے میں بہت زیادہ ٹال مٹول کرتے تھے، اور شوہر ہونے کے اعتبار سے میری طرف بالکل توجہ نہیں دیتے تھے بات چیت بھی بہت ضرورت کے تحت کرتے تھے اور آخری دو، اڑھائی سالوں سے تو کمرہ بھی انہوں نے الگ کر لیا تھا، جس کی وجہ سے میں ذہنی طور پر انتہائی اذیت میں رہتی تھی، ان کے والد صاحب سے میرے بڑے بھائی کی بات ہوئی کہ اس طرح گزارا کرنا ناممکن ہے تو ان کے والد صاحب نے کہا کہ آپ خلع کا کیس کر لو اور جدائی لے لو، اس کے بعد ہم نے خلع کا کیس دائر کیا  اور ان کو کیس کے دوران نوٹس جاتا رہا لیکن وہ حاضر عدالت نہیں ہوئے، بالآخر ڈگری جاری ہوگئی اور عدالت نے یکطرفہ فیصلہ دے دیا، فیصلہ کے کاغذات ساتھ لف ہیں۔ کیا نکاح ختم ہوگیا ہے؟ اور کیا میرے اوپر عدت آئے گی؟

نوٹ: دار الافتاء کے فون سے شوہر کو کال کرکے جب پوچھا گیا کہ آپ عدالت کیوں حاضر نہیں ہوئے تو اس نے کہا کہ:

’’میں آفس  سے ٹائم نکال کر نہیں آسکتا تھا اور ویسے بھی مجھے دلچسپی نہیں تھی، میری بیوی رہنا چاہتی ہے تو رہے نہیں تو نہ رہے۔‘‘

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں عدالت کا فیصلہ درست ہے لہٰذا یہ نکاح ختم ہوچکا ہے، عورت پر عدت گزارنا ضروری ہے، عدت کے بعد جہاں چاہے نکاح کرسکتی ہے۔

توجیہ: مذکورہ صورت میں عورت نے عدالت سے نکاح ختم کروانے کے لیے جو دعویٰ پیش کیا تھا اس میں جو وجوہات ذکر کی گئی ہیں ان میں خرچہ نہ دینا بھی مذکور ہے لیکن جب بیوی سے فون کے ذریعے بات ہوئی تو اس نے بتایا کہ اس کا شوہر اسے خرچہ (اگرچہ ٹال مٹول کے بعد دیتا تھا لیکن بہرحال) دے دیتا  تھا لہٰذا فسخِ نکاح کی یہ بنیاد تو درست نہیں، البتہ دعوی کی شق نمبر 2 میں لکھا ہے کہ ’’شوہر بیوی پر ذہنی تشدد کیا کرتا تھا ‘‘ اور ذہنی تشدد جسمانی تشدد سے بھی زیادہ اثر رکھتا ہے، اور فقہائے مالکیہ کے قول کے مطابق یہ فسخِ نکاح کی بنیاد بن سکتا ہے، اور فقہائے حنفیہ نے ضرورت کے وقت مالکیہ کے قول کو اختیار کرنے کی اجازت دی ہے لہٰذا اس قول کے مطابق عدالت کا فسخِ نکاح کا مذکورہ فیصلہ درست ہے۔

مواہب الجلیل شرح مختصر خلیل (5/228)میں ہے:

(ولها  التطليق بالضرر) ش:قال ابن فرحون في شرح ابن الحاجب: من الضرر قطع كلامه عنها وتحويل وجهه في الفراش عنها وإيثار امرأة عليها وضربها ضربا مؤلما.

شرح الكبير للدردير مع حاشیۃ الدسوقی (2/345) میں ہے:

(ولها) أي للزوجة (التطليق) على الزوج (بالضرر) وهو ما لا يجوز شرعا كهجرها بلا موجب شرعي وضربها كذلك وسبها وسب أبيها، نحو يا بنت الكلب يا بنت الكافر يا بنت الملعون كما يقع كثيرا من رعاع الناس ويؤدب على ذلك زيادة على التطليق كما هو ظاهر وكوطئها في دبرها…..

ڈاکٹر مفتی عبد الواحد صاحب رحمہ اللہ نے اپنے ایک فتوے میں لکھا ہے:

’’عدالت نے شوہر کی طرف سے کچھ جسمانی لیکن انتہائی ذہنی تشدد دینے کی وجہ سے خاتون کا نکاح خلع کی بنیادپر فسخ کردیا ہے اور ذہنی تشدد جو کہ جسمانی تشدد سے بھی زیادہ اثر رکھتا ہے، یہ مالکیہ کے قول کے مطابق فسخ نکاح کی بنیاد بن سکتا ہے اور فقہائے احناف نے ضرورت کے موقع پر مالکیہ کے قول کو اختیار کرنے کی اجازت دی ہے‘‘ [فتویٰ نمبر: 7/209]

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved