• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

زبانی طلاق دینے کےبعد کاغذپرطلاق لکھنے کاحکم

استفتاء

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

لڑکے کابیان

میں *****کا گھر میں تھوڑا مسئلہ ہوا تھا میری والدہ مجھے اور میری بیوی کو ڈانٹ رہی تھی میں اپنی بیوی سے پیار کرتا ہوں اور اس کے خلاف کچھ نہیں سن سکتا،اس دوران میرے منہ سے طلاق کا لفظ نکل گیا کہ’’ میں تمہیں طلاق دیتا ہوں‘‘ دوسری دفعہ بھی یہی مسئلہ ہوا میری بیوی نے مجھے کہا آپ مجھے طلاق دے دیں میں نے کاغذ پر  لکھ دیا کہ’’ میں ***کو طلاق دیتا ہوں‘‘ اور پھر کاغذ پھاڑ دیا تھا۔

وضاحت مطلوب ہے(۱) کاغذ اشٹام  پیپر تھا یا عام کاغذ تھا(۲) نیز پوری تحریر کیا تھی اس کو یاد کر کے لکھیں(۳) پہلی طلاق کے بعد رجوع ہوا تھا یا نہیں اگر ہوا تو کتنے عرصے بعد ہوا؟

جواب وضاحت(۱)عام کاغذ تھا(۲)میں صبا عثمان کو طلاق دیتا ہوں(۳)رجوع اسی وقت ہوگیا تھا۔

وضاحت مطلوب ہے:یہ تحریر کس نیت سے لکھی تھی حلفیہ بتائیں؟

جواب وضاحت:اصل میں میری بیوی نے مجھ سے طلاق کا مطالبہ کیا تھا جس پر میں نے کاغذ پر لکھا میں حلفاً  یہ کہتا ہوں کہ میری طلاق کی نیت  نہیں تھی مذاق میں لکھا تھا ۔

لڑکی کابیان

مولانا مفتی صاحب السلام علیکم میری شادی 14 فروری 2019 کو ہوئی تھی میرے بھائی عبیداللہ نے ایک مسئلہ آپ کے سامنے پیش کیا تھا تو مجھے بھائی نے کہا تھا کہ آپ کو میں ازدواجی زندگی کے بارے میں لکھ دوں تاکہ آپ کو مسئلہ حل کرنے میں مشکل پیش نہ آئے ۔

*****  جو کہ میرے میاں ہیں وہ شادی سے پہلے اس قابل نہیں تھے کہ وہ حق زوجیت ادا کرسکیں اور انکو شوگر کا مسئلہ تھا اور سگریٹ کی بھی لت تھی، اس کے بارے میں انہوں نے مجھے اور میرے گھر والوں کو لاعلم رکھا جس کی وجہ سے ہم سب ٹینشن میں آئے لیکن میرے گھر والوں نے مجھے سمجھا کر بھیج دیا کہ سب ٹھیک ہو جائے گا۔ان کو مردانہ کمزوری بھی ہے جو کہ شادی کی رات پتاچل گیا تھا باقی باتیں انہوں نے خود نہیں بتائیں ان کی بہن کی سہیلی جو کہ پارلر والی ہے اس نے بتائی تھیں اور جب شادی کے بعد مجھے یہ ہوٹل میں لے کر گئے تھے کھانا کھلانے تو میں نے ان سے پوچھا تویہ مجھے آدھا گھنٹہ ہوٹل میں چھوڑ کر غائب ہوگئے۔ اور پھر واپس آکر مجھے جھوٹ بول دیا کہ آپ کو بتانا تھا ٹائم نہیں ملا۔ پھر میں نے اس بات کو اگنور کیا کہ آہستہ  آہستہ سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا پھر ان کی جاب بھی ختم ہوگئی پھر میرے بھائی نے ان کو ایک اچھی کمپنی میں جاب کروا دی تو یہ وہاں خوشی سے نہیں جاتے تھے اور آئے روز چھٹی کر لیتے تھے جس پر میں ان کو کچھ نہیں کہتی تھی  لیکن جب یہ چھٹی کرتے تھے تو ان کی امی کسی نہ کسی بات پر انکو بولتی تھی اور گھر میں ایک لڑائی والا ماحول ہو جاتا تھا جس سے میری ازدواجی زندگی پر بہت برا اثر پڑتا تھا اور پھر یہ ساری رات بات بھی نہیں کرتے تھے اور پھر آئے دن مجھے یہ کہتے تھے کہ اپنی امی کے  چلے جاؤ اور گھر چھوڑنے کا حکم کرتے تھے  اور اب میں تمہارے ساتھ گزارا نہیں کرسکتا ہوں اور اس کا یہ اثر ہوا کہ انہوں نے مجھے لکھ کر دیا کہ ’’میں فراز اظہار پورے ہوش و حواس میں صبا کو طلاق دیتا ہوں‘‘پھر کہتے ہیں کہ میں مذاق کر رہا تھا اور پھر دودن بعد ان کی امی سے لڑائی ہو رہی تھی تو انہوں نے غصہ میں کہا کہ’’ میں فراز اظہار صبا کو طلاق دیتا ہوں ‘‘اور پھر معافی مانگنے لگے کہ میں نے غصہ میں کہا تھا اور اب یہ میسج کر رہے ہیں کہ ’’اپنا سامان اٹھاؤ میرے گھر سے کیونکہ تم نے سارا مسئلہ بنایا ہے اور اب تم خلع لو اور اپنا سامان اٹھاؤ اور تمہارا بھائی سامان لینے نہ آئے سامان لینے تمہارا بہنوئی آئے اگر بھائی آیا تو میں تمہارے بھائی کا لحاظ نہیں کروں گا‘‘ اور اب میسج کرکے کہہ رہے ہیں کہ تمہارا گھر تمہارا بھائی خراب کر رہا ہے جب کہ طلاق تو انہوں نے خود دی ہے، زیادتی تو وہ خود کر رہے ہیں، میں نے اور بھائی نے تو نہیں کہا تھا یہ لفظ بولنے کو ،انہوں نے خود اپنی مرضی سے بولے ہیں، پہلے دن سے ہر بات پرجھوٹ بولتے ہیں اور زکوٰۃ فنڈز پر گذارا  کرتے ہیں اور یہ اپنا علاج کروانے کو بھی تیار نہیں ہوتے ہیں اور کبھی کسی سے پیسے مانگتے ہیں اور کبھی کسی سے جس  سے میں ہر وقت ٹینشن میں رہتی ہوں ،کوئی بات ان سے پوچھتی ہوں یہ جھوٹ بولتے ہیں،یہ ساری باتیں ایک طرف ان چار مہینوں میں یہ اپنا ٹیسٹ اور علاج کروانے کے لیے تیار نہیں ہوتے اور اگر غصہ آ جائے تو کہتے ہیں کہ کسی اور کے ساتھ سو جاؤ جاکے ، انسانیت جیسی کوئی بات ہی نہیں ہے ان میں۔اور اب میسج کر رہے ہیں کہ تم اپنے راستے میں اپنے راستے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکوہ صورت میں ایک رجعی طلاق شوہرکے ان الفاظ سے ہوئی کہ ’’میں تمہیں طلاق دیتا ہوں‘‘اس کے بعد کاغذ پر ’’میں فراز اظہارپورے ہوش وحواس میں *****کو طلاق دیتا ہوں ‘‘کے الفاظ لکھنے سےاگر واقعتاً شوہر کی طلاق کی نیت نہیں تھی تو مذکورہ تحریر سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی کیونکہ مذکورہ تحریر غیر مرسوم ہے اور غیر مرسوم تحریر سے طلاق نیت پر موقوف ہوتی ہے لیکن چونکہ نیت ایک باطنی امر ہے اور شوہر نے مذکورہ تحریربیوی کے طلاق کے مطالبے پر لکھی ہے اس لئے شوہر کو اپنی بیوی کے سامنے قسم دینی  ہوگی کہ اللہ تعالیٰ کی قسم میری نیت اس تحریر سے طلاق کی نہیں تھی۔ اگرشوہر بیوی کے سامنے قسم نہیں دیتا  تو بیوی اس کو اپنے حق میں طلاق سمجھے گی۔تاہم چونکہ یہ طلاق بھی رجعی طلاق ہے اس لیے رجوع کرنے سے رجوع ہوجائے گا۔عورت کا اپنے بیان میں یہ کہنا کہ میرا شوہر مجھے یہ الفاظ کہتا تھا کہ ” اپنی امی کے چلےجاؤ اور گھر چھوڑ دو”طلاق کنائی کے الفاظ ہیں جن سے طلاق نیت کی صورت میں واقع ہوتی ہے،لہذا ان الفاظ سے اگر شوہر طلاق کی نیت نہ ہونے پر بیوی کےسامنے قسم دیدےتو ان سے بھی کوئی طلاق نہ ہوگی اوراگر قسم نہ دے تو بیوی ان الفاظ سے اپنے حق میں ایک بائنہ طلاق سمجھے گی تاہم دوبارہ نکاح کرکے رہنے کی گنجائش ہو گی۔اور اب شوہر کا یہ کہنا کہ تو اپنے راستے میں اپنے راستے اس سے کچھ نہیں ہوگا۔اس لیے کہ اس سے پہلے اس نے یہ بات کہی ہے کہ’’ اپنی امی کے چلی جا ‘‘جوکہ کنایہ ہے اور کنائی طلاق کے بعد کنائی طلاق واقع نہیں ہوتی۔

خلاصہ یہ ہے کہ شوہر کے مؤقف کے مطابق تو مذکورہ صورت میں صرف ایک رجعی طلاق ہوئی ہے جس سے عدت گزرنے سے پہلے رجوع ہوچکا ہے اوربیوی کے مؤقف کےمطابق اگر شوہر طلاق کی نیت نہ ہونے پر قسم دیدے تو بیوی کے حق میں بھی ایک رجعی طلاق ہوئی ہے اوراگر قسم نہ دے تو بیوی کے حق میں تین طلاقیں ہوگئی ہیں جس کے بعد صلح یا رجوع یک گنجائش نہیں

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved