• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

زبانی تین طلاقیں دینے کے بعد کاغذ پر تین مرتبہ ’’طلاق‘‘لکھنے کا حکم

استفتاء

میرے والد صاحب کو چار ماہ پہلے فالج کا اٹیک ہوا جس کی وجہ سے بولنے،چلنے پھرنے اور کوئی بھی کام کرنے سے قاصر ہو گئے۔ان کی ورزش کے لیے ایک فزیو تھراپسٹ آتا ہےسردی کی وجہ سے ان کا جسم اکڑ چکا ہے ،ورزش کے دوران ان کو بہت تکلیف ہوتی ہے ۔پیر کے دن شام کے وقت گھر کے دروازے کی گھنٹی بجی اس وقت میں اور میری والدہ ان کے کمرے ہی میں موجود تھے والد صاحب سمجھے کہ فزیو تھراپسٹ ہے تو انہوں نے دروازہ کھولنے سے منع کیا اور سخت غصے ہوئے۔دروازے پر فزیوتھراپسٹ نہیں تھا ان کے غصے کی وجہ سے ہم دوسرے کمرے میں چلے گئے جس پر انہیں مزید غصہ آیااور انہوں نے بہت غصے میں ہمیں واپس بلایااور کچھ کہنے لگے جو ہمیں سمجھ نہیں آیا۔ہم ان سے بات پوچھنے کے لیے کاپی پن کا سہارا لیتے ہیں کیونکہ وہ اپنی بات صاف الفاظ میں بول نہیں سکتے لہذا انہوں نے کاپی پن مانگا اور اس پر نمبر ڈال کر تین دفعہ طلاق کا لفظ تحریر کیا اور مجھے پکڑا دیا کہ والدہ کو یہ کاغذ پکڑا دوں۔ان کے دماغ کی حالت کبھی ٹھیک اور کبھی خراب ہوتی ہے جس کی وجہ سے وہ دماغی ادویات استعمال کرتے ہیں لیکن معلوم ہوتا ہے کہ انہیں معلوم ہے کہ انہوں نے کیا کیا ہے کیونکہ وہ اس کے بعد زیادہ خاموش رہنے لگے ہیں۔(اس روز وہ سارا دن ہی بہت غصے میں تھے)اگلے روز جب اس بارے میں ان سے پوچھا کہ آپ نے یہ کیوں کیا ہے؟تو انہوں نے جواب میں لکھ کر بتایاکہ”ان کے یعنی فزیو تھڑاپسٹ کے ساتھ میں ذہنی دباؤ میں ہو جاتا ہوں”۔مہربانی فرما کر اس معاملے میں رہنمائی کریں ۔میری والدہ کی عمر 55اور والد صاحب کی عمر 62سال ہے۔

(1)طلاق

(2)طلاق

(3)طلاق

نوٹ:شوہر(والد)سے فون پر رابطہ کر کے گھر کے فرد کے واسطے سے کئی مرتبہ طلاق کے متعلق پوچھا گیا لیکن وہ صاحب فراش ہونے کی وجہ سے کچھ بول یا لکھ کر نہیں بتا سکےکہ انہوں نے طلاق کے الفاظ طلاق کے ارادے سے بولے اور لکھے تھے یا بلا ارادہ۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں اگر شوہر نے طلاق کے الفاظ طلاق کے ارادہ سے بولے تھے یا طلاق کے ارادے  سےلکھے تھے تو تینوں طلاقیں واقع ہو چکی ہیں جن کی وجہ سے بیوی شوہر پر حرام ہوچکی ہے لہذا اب نہ رجوع ہو سکتا ہے اور نہ صلح کی کوئی گنجائش ہے لیکن اگر شوہر نے طلاق کے الفاظ طلاق کے ارادے سے نہ بولے تھے اور نہ طلاق کے ارادے سے لکھے تھے  بلکہ ذہنی بیماری کی ادویات کے باعث ذہنی دباؤ کا شکار ہوکر طلاق کے الفاظ بولے ہیں تو اس صورت میں کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی۔

الدر المختارط رشیدیہ (509/4)میں ہے:

كرر ‌لفظ الطلاق وقع الكل

وفى الشامية:(قوله ‌كرر ‌لفظ الطلاق) بأن قال للمدخولة: أنت طالق أنت طالق أو قد طلقتك قد طلقتك أو أنت طالق قد طلقتك أو أنت طالق وأنت طالق، وإذا قال: أنت طالق ثم قيل له ما قلت؟ فقال: قد طلقتها أو قلت هي طالق فهي طالق واحدة لأنه جواب، كذا في كافي الحاكم (قوله وإن نوى التأكيد دين) أي ووقع الكل قضاء

رد المحتار(439/4) میں ہے:

وللحافظ ابن القيم الحنبلي رسالة في طلاق الغضبان قال فيها: إنه على ثلاثة أقسام: أحدها أن يحصل له مبادئ الغضب بحيث لا يتغير عقله ويعلم ما يقول ويقصده، وهذا لا إشكال فيه. والثاني أن يبلغ النهاية فلا يعلم ما يقول ولا يريده، فهذا لا ريب أنه لا ينفذ شيء من أقواله.

الثالث من توسط بين المرتبتين بحيث لم يصر كالمجنون فهذا محل النظر، والأدلة تدل على عدم نفوذ أقواله. اه……………

(وبعد اسطر) فالذي ينبغي التعويل عليه في المدهوش ونحوه إناطة الحكم بغلبة الخلل في أقواله وأفعاله الخارجة عن عادته، وكذا يقال فيمن اختل عقله لكبر أو لمرض أو لمصيبة فاجأته: فما دام في حال غلبة الخلل في الأقوال والأفعال لا تعتبر أقواله وإن كان يعلمها ويريدها لأن هذه المعرفة والإرادة غير معتبرة لعدم حصولها عن إدراك صحيح كما لا تعتبر من الصبي العاقل

فتاویٰ خیریہ(ص67) علی ہامش تنقیح الفتاویٰ الحامدیہ میں ہے:

"والحكم في المجنون اذا عرف أنه جن مرة فطلق وقال عاودني الجنون فتكلمت بذلك وأنا مجنون ان القول قوله بيمينه وان لم يعرف بالجنون مرة لم يقبل قوله كما في الخانية والتاترخانية وغيرهما فظهر لك من هذا ان المدهوش ان عرف منه الدهش مرة فالقول قوله بيمينه وان لم يعرف لم يقبل قوله قضاء الا ببينة اذ الثابت بالبينة كالثابت عيانا اما ديانة فيقبل لأنه أخبر بنفسه”

بدائع الصنائع ط رشیدیہ (3/ 295)میں ہے:

وأما الطلقات الثلاث فحكمها الأصلي هو زوال الملك، وزوال حل المحلية أيضا حتى لا يجوز له نكاحها قبل التزوج بزوج آخر؛ لقوله – عز وجل – {فإن طلقها فلا تحل له من بعد حتى تنكح زوجا غيره} [البقرة: 230] ، وسواء طلقها ثلاثا متفرقا أو جملة واحدة

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم               

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved