• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

والدہ کے حصے کامطالبہ

استفتاء

میں مسمی لبنیٰ منان قران و سنت کی روشنی میں آپ سےایک مسئلہ کا حل پوچھنا چاہتی ہوں۔ میرے نانا کا آبائی گھر پاکپتن شریف میں ہے۔ میری والدہ پانچ بہنیں اور تین بھائی تھے۔ اب ان میں سے دو بہنیں اور دو بھائی حیات ہیں۔ اس گھر میں میرے درمیان والے ماموں ( انوار صاحب) اپنے بیوی بچوں سمیت رہتے ہیں۔ تینوں بھائیوں نے  آپس میں مشورہ سے جائیداد کا ادل بدل کر لیا اورسارا گھر ماموں انوار کو مل گیا۔ اب پانچوں بہنوں کا حصہ اس گھر میں  رہ گیا  اور باقی بھائیوں کا ختم ہوگیا۔ تو سب سے بڑی خالہ عائشہ بیگم نے اپنا حصہ ماموں کے نام کردیا بغیر کچھ لیے ، وہ اب وفات پاچکی ہیں۔ مگر باقی چار بہنیں سمیت میری والدہ کے پیسوں کا مطالبہ کرنے لگیں۔ لیکن ماموں نے پیسے نہیں دیے، دوسرے نمبر والی خالہ صفیہ طلاق یافتہ تھیں اور ماموں کےساتھ ہی  رہتی تھیں تو میری والدہ نے کہا جب تک ہماری بہن حیات ہیں ہم حصہ نہیں مانگیں گی۔ اب وہ خالہ صفیہ بھی وفات  پا چکیں  ہیں۔ انہوں نے بھی وفات سے پہلے اپنا حصہ بھائی کے نام کر دیا تھا بغیر کچھ لیے۔

اب تین بہنیں باقی رہ گئیں، خالہ خالدہ بھی پیسوں کا مطالبہ کرتی  رہیں، پھر وہ امریکہ جانے سے پہلے اپنا حصہ بھی ماموں کےنام کرگئیں بغیر کچھ لیے۔ اب میری والدہ اور چھوٹی خالہ راشدہ رہ گئیں خالہ راشدہ کے شوہر بھی پیسوں کا مطالبہ کرتے رہے۔پھر ان کے شوہر نے بھی کہہ دیا کہ اپنا حصہ بھائی کےنام کردو۔ اب رہ گئیں میری والدہ وہ بھی کہنے لگیں میں بھی اپنا حصہ بھائی کے نام کر دیتی ہوں، اس کے لیے وہ پاکپتن جانے کے لیے تیار بھی ہوئیں لیکن اچانک بیمار ہوگئیں اور ایک مہینہ بیمار رہنے کے بعد وفات پاگئیں۔ اب والدہ  کے قل والے دن میرے ممانی کہنےلگیں، اب تم  چاروں بہن بھائی وارث ہو، اب  گھر کا حصہ ہمارے نام کر دو ۔ بڑے بھائی نے کہا ابھی یہ موقع نہیں ہے۔ تو وہ خاموش ہوگئیں۔ میرے تین بھائی اور ایک میں خود ہوں۔ یعنی چار وارثان ہیں۔ اس حصہ کی مالیت سات، آٹھ لاکھ ہے۔ میرے ماموں پہلے صاحب حیثیت نہیں تھے جب بہنیں پیسوں کا مطالبہ کرتی تھیں۔ اس لیے وہ پیسے ادا نہ کر سکے اور بہنوں نے  بھی اپنے بھائی کا خیال کیااور بغیر پیسے لیے اپنا حصہ ان کے نام کر تیں گئیں۔ لیکن اب ماموں صاحب  حیثیت ہیں ان کے بیٹے لاکھون میں کما رہے ہیں۔ اب میں آپ سے پوچھنا چاہتی ہوں کہ کیا ہم وارثان کا حق بنتا ہے؟ کہ ہم ان سے رقم کا مطالبہ کر سکیں۔ قرآن و حدیث کی روشنی میں بتائیں۔ میں یہ اس لیے پوچھنا چاہتی ہوں کہ  میری والدہ خود تیار تھیں اپنا حصہ اپنے بھائی کے نام کرنے کو۔ لیکن میری والدہ نے ہم سب بہن بھائیوں سے کوئی بات نہیں کی تھی کوئی وصیت یا منہ زبانی کچھ نہیں کیا تھا اور ہم بھی یہ سمجھتے تھے کہ بہن بھائی کا آپس کا معاملہ ہے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

آپ بہن بھائی اپنی والدہ کے حصے کامطالبہ کرسکتے ہیں۔ کیونکہ آپ کی والدہ نے اپنا حصہ آپ کےماموں کو دینے کا ارادہ  کیا تھا۔ دیا نہیں تھا۔ اور جن بہنوں نے اپنا حصہ آپ کےماموں کو دے یا ہے، اس سےوہ ان حصوں کےمالک ہوگئے ہیں۔ اگرچہ اصل مذہب کے مطابق ہبتہ المشاع فاسد ہے۔ لیکن ایک روایت یہ ہے کہ شریک جائیداد کو بغیر تقسیم کیے ہبہ کرنا درست ہے۔ اور بعض نے اسے مختار بھی کہا ہے۔

في الدر المختار: وقيل يجوز لشريكه و  هو المختار. (8/ 576 )

لیکن خلاف  ظاہر مذہب ہونے کی وجہ سے اس روایت کو مجبوری کی حالت میں ہی اختیار کیا جاسکتا ہے۔ اور سوال میں مذکورہ صورت مجبوری میں داخل ہے۔ کیونکہ آجکل تقسیم جائیداد میں خرچ اور پریشانی بہت  زیادہ ہے، لہذا مسائل کی والدہ کی بہنوں کا ہبہ درست ہوگا۔ (کذا فی امداد الاحکام: 4/ 38 )

نیز دیگر ائمہ کے ہاں بھی ہبتہ المشاع درست ہے۔

كما في المغني: و تصح هبة المشاع و به قال مالك و الشافعي. ( 5/ 390 )

و في البدائع: و عندا لشافعي رحمه الله ليس بشرط و تجوز هبة المشاع فيما يقسم و فيما لا يقسم عنده. (5/ 170)

و في الهداية: و قال الشافعي تجوز في الوجهين لأنه عقد تمليك فيصح في المشاع و غيره كالبيع بأنواعه. (3/ 285 )

چنانچہ جن بہنوں نے اپنا حصہ آپ کےماموں کو دیا ہے، ان حصوں کے وہ مالک ہو گئے ہیں۔البتہ آپ کی والدہ نے محض ارادہ کیا تھا، دیا نہیں تھا، اس لیے وہ اس حصے کے مالک نہیں ہوئے اور آپ بہن بھائی اس کا مطالبہ کر سکتے ہیں۔ فقط واللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved