• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

والدہ اور چھوٹے بھائی کا خرچہ

استفتاء

ہمارےوالد محترم کا انتقال ہو چکا ہے ہم چار بھائی ہیں اور ہماری ایک بہن ہے تین بڑے بھائیوں اور بہن کی شادی ہو چکی ہے سب سے چھوٹے بھائی کی عمر تیرہ سال ہے جو زیر تعلیم ہے اور ہماری والدہ بھی حیات ہیں۔سب سے بڑے بھائی کی تنخواہ دس ہزار روپے،اس سے چھوٹے بھائی کی تنخواہ دو ہزار سعودی ریال(پاکستانی ایک لاکھ چھبیس ہزار روپے)اور میری تنخواہ 45ہزار روپے ہے۔سب سے بڑے بھائی الگ رہتے ہیں ان کا کھانا پینا،رہائش سب الگ ہے جبکہ باقی تین بھائی ایک ساتھ رہتے ہیں۔دوسرے نمبر والے بھائی جو سعودی عرب میں کام کرتے ہیں تقریبا 27لاکھ کے مقروض ہیں میں اپنی مکمل تنخواہ سے ان کا قرض ادا کرتا ہوں کیونکہ ہماری رہائش اور کھانا پینا ایک ساتھ ہے اور وہ اپنی تنخواہ کا کچھ حصہ گھر بھیجتے ہیں،کچھ اپنے اخراجات کے لیے رکھتے ہیں اور آدھی تنخواہ کے لگ بھگ حصہ سے اپنا قرض اتارتے ہیں۔ میرا سوال یہ ہے کہ ہم تینوں بھائی اپنی والدہ اور چھوٹے بھائی کا خرچہ آپس میں کیسے تقسیم کریں؟ کیونکہ  بھائیوں کا اس معاملے میں اختلاف ہوگیا ہے۔

تنقیح: والدہ اور چھوٹے کا خرچہ تیس ہزار روپے ہے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت حال کے پیش نظر آپ کی والدہ اور چھوٹے بھائی کے اخراجات سب بھائیوں کے ذمے ہیں البتہ جوبھائی جس قدر زیادہ مالدار ہے اسی حساب سے اخراجات کا زیادہ تر حصہ اسی کے ذمہ ہے ۔ جس کی  تفصیل یہ ہے کہ جس بھائی کی تنخواہ ایک لاکھ چھبیس ہزار روپے ہے اس کے ذمے کل خرچے کا 69.62 فیصد(20886 روپے)، پینتالیس ہزار تنخواہ والے بھائی کے ذمے کل خرچے کا 24.83 فیصد (7452 روپے) اور دس ہزار تنخواہ والے بھائی کے ذمے کل خرچے کا  5.54 فیصد (1662 روپے) ہوگا۔

تقسیم کی صورت درج ذیل ہے:

بیٹوں کی تفصیلماہانہ تنخواہکل خرچہ ذمہ فیصد میںکل خرچہ ذمہ روپے میں
پہلا بیٹا10ہزار روپے5.54 فیصد1662 روپے
دوسرا بیٹا45 ہزار روپے24.83 فیصد7452 روپے
تیسرا بیٹاایک لاکھ چھبیس ہزار وپے69.62 فیصد20886روپے

فتاوی تاتاخانیہ(4/176) میں ہے:

وفي(الغياثية):محتاج له أولاد صغار محاويج وله ابن كبير موسر أجبر على نفقة أبيه وعلى نفقتهم أيضا لأن الأب كالميت لفقره ولو مات فنفقتهم عليه كذا هنا………….

قال:ويجبر الولد الموسر على نفقة أبيه وأمه اذا كانا محتاجين،هكذا ذكر الامام خواهر زاده وشمس الأئمة السرخسي في كتابه………… قال:رجل معسر له ابنان أحدهما موسر مكثر والآخر متوسط الحال كان النفقة عليهما ويجعل على المكثر من ذلك أكثر مما يجعل على الآخر،هكذا ذكر الخصاف فى (أدب القاضي)في نفقاته،وذكر محمد في(المبسوط)وقال:يكون بينهما علي السواء.قال مشايخنا:انما تكون النفقة عليهما علي السواء اذا تفاوتا في اليسار تفاوتا يسيرا،أما اذا تفاوتا تفاوتا فاحشا يجب أن يتفاوتا في قدر النفقة.

خیر الفتاویٰ(6/164) میں ہے:

سوال: میرے چار بیٹے ہیں بڑے کا نام کلیم اللہ اس سے چھوٹے کا نام حفیظ اللہ پھر حبیب اللہ اور سب سے چھوٹے بیٹے کا نام سلیم اللہ ہے۔میرے بڑے دو بیٹے کلیم اللہ اور حفیظ اللہ دونوں سرکاری ملازم ہیں ایک کی تیس ہزار اور دوسرے کی بیس ہزار ماہوار تنخواہ ہے۔ان دونوں نے مجھے بیس سال سےروٹی خرچہ نہیں دیااور نہ ہی کسی دکھ سکھ میں مدد کی اس وقت مجھےصرف میرا تیسرا بیٹا حبیب اللہ سارا خرچہ دیتا ہے اور میری کفالت کرتا ہے یہ بھی سرکاری ملازم ہے اس کی تنخواہ دس ہزار ہے لیکن اس کے ساتھ یہ اپنے دو گھروں کے اخراجات بھی کرتا ہے اس کی دو شادیاں ہوئی ہیں اور میرے چوتھے اور سب سے چھوٹے بیٹے سلیم اللہ کا کوئی کاروبار یا ملازمت نہیں ہے۔مولانا!فرمائیں شرعی طور پر میں اپنے بڑے بیٹوں کلیم اللہ اور حفیظ اللہ جنہوں نے کبھی مجھے خرچہ نہیں دیا اور نہ ہی دیتے ہیں میں ان سے خرچہ کا دعوی کر سکتا ہوں۔آنکھیں بند ہو چکی ہیں گردے کا آپریشن کرایا ہوا ہے۔اس وقت میری عمر پچاسی سال ہے فالج کے خطرے سے چلنا پھرنا بند ہو گیا ہے۔

جواب: اگر آپ کی ذاتی جائیداد اس قدر ہے کہ آپ اپنے نفقہ میں خود کفیل ہیں تو کسی بھی لڑکے پر آپ کا خرچہ شرعا لازم نہیں کیونکہ اولاد پر خرچہ اس وقت لازم ہوتا ہےجبکہ والد تنگ دست اور محتاج ہوں چنانچہ شامی میں ہے:

تجب على موسر……..النفقةلاصوله الفقراء…….قوله الفقراء قيدبه لأنه لا تجب نفقة الموسر الا الزوجة.وفى العالمگيرية:لا يقضي بنفقة أحد من ذوي الأرحام ‌إذا ‌كان ‌غنيا

البتہ اگر اپنی ذاتی جائیداد نہیں اور تنگ دست ہیں تو پھر آپ کی اولاد پر آپ کے اخراجات وعلاج معالجہ کا انتظام کرنا لازم ہے۔

لمافى الدر المختار:‌تجب (‌على ‌موسر) ولو صغيرا…….(النفقة لاصوله)الفقراء ولو قادرين على الكسب.وفي العالمگيرية:ويجبر ‌الولد الموسر على نفقة الأبوين المعسرين مسلمين كانا، أو ذميين الخ.

اور یہ نفقہ تمام لڑکوں کے ذمہ ہے البتہ جو لڑکا جس قدر ذیادہ مالدار ہے مفتی بہ قول کے مطابق اسی حساب سے نفقہ کا ذیادہ تر حصہ اسی کے ذمہ ہے۔چنانچہ شامی میں ہے:

لو كان للفقير ابنان أحدهما ‌فائق ‌في ‌الغنى والآخر يملك نصابا فهي عليهما سوية خانية……. ثم نقل عن الحلواني قال مشايخنا: هذا لو تفاوتا في اليسار تفاوتا يسيرا، فلو فاحشا يجب التفاوت فيها بحر.

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved