• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

شادی کے موقع پر دیے جانے والے زیور کاحکم

استفتاء

می***نے بیٹے کی شادی کے وقت  دلہن کو شادی پر پہننے کے لیے  زیور دیا،  وہ اس زیور کو بوقت ضرورت استعمال کرتی رہی۔ چار سال کے بعد دونوں میاں بیوی میں ناچاقی ہوگئی اورطلاق پر نوبت آپہنچی اب جو زیور سات تولہ  تھا وہ  ساتھ لے گئی اور ہمیں پیغام دیا کہ کوئی  بھی مطالبہ نہ کرے،ہم زیور واپس لینا چاہتے ہیں،ہمارے رواج کے مطابق شادی پر دیا جانے والا زیور دلہا کی ملکیت ہوتا ہے۔ زوجین رضامندی سے استعمال کرسکتے ہیں، اس مسئلے میں دلہاکی مرضی کے بغیر چوری کرکے لڑکی اپنے والدین کے گھر لے گئی ہے۔ رہنمائی فرمائیں کہ ہمیں یہ زیور لینا چاہیے یا نہیں؟

دوسرے فریق کا مؤقف معلوم کرنے کے لیے دارالافتاء سے رابطہ کیا گیا تو دوسرے فریق نے یہ کہا :

"نہ ہم نے مسئلہ پوچھنا ہے اور نہ ہی ہم نے آپ کو کچھ بتانا ہے،البتہ وہ زیور سات تولہ پورا  نہیں تھا بلکہ کم تھا”

رواج کے بارے میں دو لوگوں کا بیان:

می***کی رائے ہے کہ شادی کے وقت جو زیور لڑکے کے والدین دیتے ہیں وہ دلہا کی ملکیت ہوتا ہے دلہن، دلہا کی رضامندی کے بغیر اپنی ملکیت میں نہیں لے سکتی۔

میں***  کی رائے ہے کہ شادی پر جو زیور دلہا کے والدین  دلہن کو دیتے ہیں وہ زیور دلہا کی ملکیت ہوتا ہے دلہن بغیر رضامندی کے اپنی ملکیت میں نہیں لے سکتی۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں لطیف صاحب نے جو زیور شادی کے موقع پر اپنی بہو  کو پہنایا تھا  وہ اس کا  مطالبہ کرسکتے ہیں۔

توجیہ: شوہر کے ولی نے  جو کچھ زیور اپنی بہو کو دیا اس میں کوئی صراحت نہیں تھی لہٰذا اس میں شوہر کے خاندان کا عرف معتبر ہوگا اور اگر  کچھ رواج نہ ہو تو دینے والے کی نیت اور قول معتبر ہوگا لہٰذا مذکورہ صورت میں شوہر کے خاندان کے عرف کے مطابق ایسا زیور دلہا کی ملکیت ہے اس لیے لطیف صاحب اپنا زیور واپس لے سکتے ہیں۔

فتاویٰ عالمگیری(1/327) میں ہے:

وإذا بعث الزوج إلى أهل زوجته أشياء عند زفافها ‌منها ‌ديباج فلما زفت إليه أراد أن يسترد من المرأة الديباج ليس له ذلك إذا بعث إليها على جهة التمليك، كذا في الفصول العمادية.

 جهز بنته وزوجها ثم زعم أن الذي دفعه إليها ماله وكان على وجه العارية عندها وقالت: هو ملكي جهزتني به أو قال الزوج ذلك بعد موتها فالقول قولهما دون الأب وحكى عن علي السغدي أن القول قول الأب وذكر مثله السرخسي وأخذ به بعض المشايخ وقال في الواقعات إن كان العرف ظاهرا بمثله في الجهاز كما في ديارنا فالقول قول الزوج، وإن كان مشتركا فالقول قول الأب، كذا في التبيين. قال الصدر الشهيد – رحمه الله تعالى – وهذا التفصيل هو المختار للفتوى، كذا في النهر الفائق

فتاویٰ محمودیہ(12/126) میں ہے:

سوال (5946)زید کانکاح رقیہ  کے ساتھ ہوا جس طرح سے لوگ بغیر تصریح ملکیت  کے زیور بیوی کو دیتے ہیں، اسی طرح زید کے ولی و سرپرستوں نے کچھ زیورات رقیہ کے پاس بھیجے جس سے رقیہ زیورات اپنے استعمال میں لا رہی ہے۔ زید کے سرپرستوں نے زبان سے کچھ تصریح نہیں کی، زیورات بطور رواج کے دیا، یا عاریت، یا امانت کے طور پر دیا ،عدم تصریح رواج وعدم تصریح ملکیت کی صورت میں حدیث یا فقہ کی عبارت مع ترجمہ اردو لکھ کر صاف صاف بتلایا جائے کہ زیورات کس کی ملکیت ہیں زید کی یا رقیہ کی؟

2۔رواج پر عمل کیا جائے گا تو شوہر کے یہاں کا رواج دیکھا جائے گا یا زوجہ کا؟ اور عدم رواج کی صورت میں زیور کس کی ملکیت میں ہے؟

الجواب حامدا ومصلیا:شوہر یا اس کے ولی نے جو کچھ زیور دیا ہے اور اس میں تصریح ملکیت یا عاریت کی نہیں کی ہے اس میں شوہر کے خاندان کا رواج معتبر ہوگا کچھ رواج نہ ہو تو دینے والے کی نیت اور قول کا اعتبار ہوگا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم               

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved