• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

تین دن سے زائد قطع تعلقی

استفتاء

ہم تین بہن اور ایک بھائی ہیں۔ میرے والد مرحوم و مغفور نے ہمیشہ اپنی تینوں بیٹیوں کے ساتھ حسن سلوک کیا، خصوصاً میرے ساتھ بڑی ہونے کی حیثیت سے شفقت و احترام کا معاملہ رکھا۔ میرا چھوٹا بھائی بچپن سے ہی احساس محرومی اور حسد کا شکار رہا ہے، وہ چاہتا ہے کہ اس کی باتوں کو ہمیشہ اہمیت دی جائے، جو حکم وہ اپنی بہنوں کو دے اس کی بجا آوری ضروری ہے، ورنہ اس کا رویہ نہایت ہی تحقیر آمیز اور طنزیہ ہو جاتا ہے۔ میں نے جب سے ہوش سنبھالا ہے میرا بھائی اپنی زبان درازی کی وجہ سے مجھے بار بار رُلا چکا ہے جس کے نتیجے میں میں ہمیشہ خاموشی اختیار کر لیتی ہوں۔

میری عمر 42 سال ہو چکی ہے، میرا بھائی عمر میں دو سال چھوٹا ہے، میں اپنی حساس  طبیعت کی وجہ سے  ڈپریشن کی مریض بن چکی ہوں، میرا بھائی میرے والد صاحب کے مرنے کے بعد اب ننگی گلیوں پر اتر آیا ہے۔ ڈپریشن کے مرض کے طعنے دیتا ہے، کوئی بات سمجھاؤ تو طعنے مارنا شروع کر دیا ہے کہ اپنے دماغ کا علاج کروا جا جا کر اپنی ڈپریشن کی میڈیسن  لیتی تھی، میں تقریباً ہر ہفتے اپنی والدہ سے ملنے جاتی ہوں، جہاں پر میرا بھائی بھی موجود ہوتا ہے، والدہ محترمہ بھی بڑی بہن ہونے کی حیثیت سے میری بات کو اہمیت دیتی ہیں، جس کی وجہ سے وہ مزید حسد میں مبتلا رہتا ہے۔

میری والدہ کو بلڈ پریشر ہو گیا ہے، جس کی وجہ سے وہ بہن بھائی کی اس بحث و تکرار سے سخت پریشان ہو جاتی ہیں۔ میں اپنی والدہ کی طبیعت کی وجہ سے ہر دفعہ در گذر کر جاتی ہوں۔ اب میرے بھائی کو یہ بات سمجھ آ گئی ہے کہ میں اپنی بہن کو چاہے گالیاں دو، چاہے طنز کروں وہ اپنی ماں کی وجہ سے میرے گھر بھی آئے گی اور میری تذلیل بھی سہے گی، میرا بھائی اپنے بیوی بچوں کے سامنے یہ رویہ رکھتا ہے۔ اس دفعہ گالیاں سننے کے بعد میں نے فیصلہ کیا ہے کہ میں اپنی والدہ سے اپنے گھر میں ملاقات کرلوں گی اور اپنے اس بھائی سے تب تک دوری اختیار کروں گی جب تک وہ اپنا رویہ ٹھیک نہیں کر لیتا۔

کیا شریعت مجھے اس بات کا حق دیتی ہے؟ میرا یہ عمل صلہ رحمہ کے خلاف تو نہیں؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں آپ کے لیے اس بات کی گنجائش ہے کہ بھائی کے گھر نہ جائیں، اپنے ہی گھر میں والدہ سے ملاقات کر لیں۔ اس صورت میں آپ پر بھائی سے قطع تعلقی کا گناہ نہ ہو گا۔

ثم أن الهجران الممنوع إنما هو ما كان لسبب دنيوي أما إذا كان بسبب فسق المرء و عصيانه فأكثر العلماء علی جوازه قال الخطابي: رخص أن يغضب علی أخيه ثلث ليال لقلته و لا يجوز فوقها إلا إذا كان الهجران في حق من حقوق الله فيجوز ذلك. و في حاشية السيوطي علی المؤطأ: قال ابن عبد البر هذا مخصوص بحديث كعب بن مالك و رفيقه حيث أمر ﷺ بهجرهم يعني زيادة علی ثلث إلی أن بلغ خمسين يوماً قال و أجمع العلماء علی أن من خاف من مكالمة أحد و صلته ما يفسد عليه دينه أو يدخل مضرته في دنياه يجوز له مجانبته و بعد و رب صرم جميل خير من مخالطة تؤذيه.

نقل الشيخ علي القاري جميع هذه الأقوال في المرقاة ثم قال قلت الأظهر أن يحمل هذا الحديث علی المتواخيين أو المتساويين بخلاف الوالد مع الولد و الأستاذ مع تلميذه و عليه يحمل ما وقع من السلف و الخلف لبعض الخلف. و حاصل ذلك أن الهجران إنما يحرم إذا كان من جهة غضب نفساني أما إذا كان علی وجه التغليظ علی المعصية و الفسق أو علی وجه التأديب كما وقع مع كعب بن مالك و صاحبيه أو كما وقع لرسول الله ﷺ مع أزواجه أو لعائشة مع ابن الزبير فإنه ليس من الهجران الممنوع. و الله سبحانه أعلم (تكملة فتح الملهم: 5/ 181) فقط و الله تعالی أعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved