• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

اولاد کو عاق کرنے کا حکم

استفتاء

كيا فرماتے  ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک باپ  کے دو بیٹے اور ایک بیٹی  ہے، تقریباً 20 سال گزرنے کے بعد گھریلو ناچاقی کی وجہ سے  اس باپ نے مجبور ہوکر اپنی بیوی کو طلاق دیدی، اب تینوں بچے اسی باپ  کے گھر یعنی  اپنے والد صاحب کے گھر میں رہ رہے ہیں جبکہ وہ گھر باپ ہی  کے نام پر  ہے، رجسٹری اور انتقال سب باپ کے نام ہے۔ پچھلے 6 سالوں سے طلاق شدہ عورت اور بچوں کا مطالبہ ہے کہ  گھر ہمارے نام پر رجسٹر ڈ کردو، بالغ اولاد مکمل طور پر نافرمان ہے، بالکل قطع تعلق کیا ہوا ہے،  یہ شخص بحیثیت والد اس اولاد کو 6 سالوں سے راضی کررہا ہے  جبکہ  ان کی نافرمانی روز بروز بڑھتی جارہی ہے یہاں تک کہ گالی گلوچ سے بھی گریز نہیں کرتے، طلاق کے دن سے صرف معاملات اور گھر کے طلبگار ہیں۔  حالانکہ یہ باپ  کرایہ کے گھر میں رہ رہا  ہےاور طلاق شدہ بیوی اور بچے اس کے  ذاتی گھر میں رہ رہے ہیں۔ اب مسلسل نافرمانی کی وجہ سے یہ باپ  ان کو عاق کرنا چاہتا ہے  تو کیا  یہ عاق کرنا شرعاً جائز ہے یا نہیں؟ اور یہ باپ  اس اولاد سے قطع تعلقی کرنا چاہتا ہے   اور ان سے اپنا گھر خالی کروانا چاہتا ہے  کیونکہ اس کی  اولاد کسی بھی صورت میں اس  سے تعلق نہیں رکھنا چاہتی، فقط اس   سے خرچہ ومال لینے کی طلبگار ہے۔ اب عاق کرنا، قطع تعلقی کرنا اور اپنا گھر ان سے خالی کروانا  اس باپ کے لیے جائز ہے یا نہیں؟

نوٹ: یہ میرا اپنا سوال ہے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

عاق کرنے کا تو شریعت میں کچھ اعتبار نہیں، البتہ نافرمان اولاد سے قطع تعلقی کرنا اور اپنا گھر ان سے خالی کروانا جائز ہے۔ نیز اگر آپ یہ چاہتے ہیں کہ میری وفات کے بعد میری نافرمان اولاد میرے مکان کی وارث نہ ہو تو آپ اپنا یہ مکان اپنی زندگی میں کسی مسجد، مدرسے یا کسی اور کارِ خیر کے لیے وقف کرسکتے ہیں۔

امداد المفتین (ص:879)میں ہے:

سوال:***اپنی اولاد کی نالائقیوں سے تنگ آکر ان کو عاق کرتا ہےاس کے خیال میں ایسا کرنے سے اس کا لڑکا فرزندی سے خارج ہوجاتاہےاور حق وراثت سے محروم سمجھا جاتا ہےاس باب میں شرع کا کیا حکم ہے عاق کرنے والا خاطی ہے یا نہیں؟اس کو ایسا کرنا چاہیے یا نہیں؟اور لڑکی کو عاق کرسکتا ہے یا نہیں؟

جواب:عاق و محروم کرنے کی دو صورتیں ہیں ایک تو یہ ہے کہ اپنی زندگی اور صحت میں اپنا تمام مال وجائیداد اس وارث کے علاوہ دوسرے وارثوں یا غیر وارثوں میں تقسیم کرکے مالک بنادے اور اس کے لیے کچھ نہ چھوڑے اس صورت میں اس کایہ تصرف اس کی ملک میں نافذ ہےپھر اگر اس نے بلا وجہ وارث کو محروم کیا ہے تو سخت گناہ گار ہوگا ،حدیث میں ہے"من قطع ميراث وارثه قطع الله ميراثه من الجنة رواه ابن ماجة والبيهقى كذا في المشكوة باب الوصية”اور اگر اس وارث کی ایذاؤں اور تکالیف سے یا فسق وفجور سے تنگ ہوکر ایسا کیا ہےتو توقع ہے کہ اللہ معاف فرمادیں ،دوسری صورت یہ ہے کہ اپنی حیات میں کسی کومالک نہیں بنایا بلکہ بطور وصیت زبانی یا تحریری یہ طے کردیا کہ فلاں شخص کو میری میراث نہ ملے تو یہ کہنا اور لکھنا فضول اور بے کار ہے شرعا اس کا کوئی اثر نہیں بعد وفات حسب حصہ شرعیہ اس کو میراث ملے گی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved