• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

بعد میں تعمیر کی ہوئی عمارت وراثت میں شامل نہیں

استفتاء

بندہ 1947ء سے ایک مکان مین رہتارہا ہے جو والد صاحب  کے نام تھا۔ اب بھی ہے میرے تین بھائی اور ایک بہن ہیں جو علیحدہ  اپنے اپنے مکانوں میں  رہتےہیں ۔ بہن شادی شدہ ہیں بچے  ہیں خاوند کرنل ریٹائرڈ ہیں۔ دونوں میاں بیوی علیحدہ  مکان میں ایک گاؤں میں رہتے ہیں۔

والدہ بہت مدت پہلے فوت ہوئی جبکہ والد صاحب گذشتہ   مئی میں طویل  بیماری کے بعد فوت ہوگئے۔ آخری چند سال وہ میرے چھوٹے بھائی  کے ہاں  رہتے رہے ہیں۔

قریباً8سال قبل  2000ء میں والد صاحب  والا مکان گرایا گیا  اور نیا مکان اسی جگہ تعمیرکیا گیا۔ جہاں  میں قیام پذیر تھا۔ نئے مکان کی تعمیر کی بنیاد والد صاحب نے  از خود رکھی اس میں تمام بھائیوں  وہمشیرہ  کی رضامندی و اخلاقی تعاون بھی تھا ۔ نئی تعمیر پر قریباً 9 لاکھ روپے خرچ ہوئے جو میں نے اپنی جیب سے ادا کئے۔  تب سے اس نئے مکان میں اپنے بیوی بچوں کے ہمراہ قیام پذیرہوں۔

اب سوال یہ ہے کہ اس مذکورہ مکان کی شرعی حیثیت کیا ہے جبکہ والد صاحب انتقال کرچکے ہیں۔ آیا اس کی تقسیم وارثوں میں ہونی ہے یا شرعی طور پر یہ میرے قبضے میں ہوگا؟ جبکہ اس کی تعمیر نو  پر کل خرچ میں نے  کیا۔ اگر چہ پرانے دکان کا کچھ ملبہ (اینٹ ولکڑ) بھی اس کی تعمیر میں استعمال ہوا۔

میرے تمام بھائی وہمشیرہ نہایت خوشحال ہیں اور اپنے اپنے مکانوں میں قیام پذیر ہیں ۔ کسی نے بھی اس مذکورہ مکان میں اپنے حصے وغیرہ کا کوئی مطالبہ نہیں کیا نہ  ہی آئندہ کرینگے۔ تاہم  میں اس سلسلے میں شرعی وراثت وغیرہ کے مطابق راہنمائی چاہتا ہوں   کہیں ایسا نہ ہو کہ شرعی لحاظ سے میرا اس مکان پر قبضہ نا جائز تصور ہو اور دوسروں کے حقوق کا بار میرے  ذمے نہ پڑ جائے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں عمارت میں دوسرے بہن بھائیوں کا حصہ نہیں ہے ۔ البتہ خالی زمین کی قیمت میں اور استعمال شدہ ملبہ کی قیمت میں دوسرے بہن بھائیوں کا بھی حق ہے۔ لہذا آپ اپنے بھائی بہنوں سے بات کیجئے اگر وہ  آپ کو اپنا حصہ ہدیہ کردیں تویہ بھی درست ہے اور اگر وہ اپنا حصہ طلب کریں تو جتنا حصہ بنتاہے۔ وہ ان کو دے دیں۔ فقط واللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved