• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

بیٹی کو شہوت سے چھونا

استفتاء

شوہر کا بیان

ایک بھائی نے بیوی کے ہوتے ہوئے اپنی سگی بیٹی کو ساتھ حالت شہوت میں ہاتھ لگایا، برہنہ حالت نہیں تھی۔ جبکہ بیٹی لاعلم ہے۔ بالکل سوئی ہوئی تھی۔ اور کہتا ہے کہ میرے کپڑے بھی موٹے تھے۔ دونوں بالکل برابر سوئے ہوئے تھے۔ بیوی نے جب دیکھا تو فوراً اٹھ کھڑا ہوا اور بیوی سے برداشت نہ ہوسکا اور وہ بول پڑی اور الٹا خاوند اس کو مارنے پیٹنے لگا۔ طلاق کے لفظ نہیں کہے مگر جو بیوی و خاوند جھگڑا ہو تا ہے وہ ہوتا رہا۔ دو دن کے بعد بڑی اماں کے سمجھانے کے بعد مسئلہ ٹھیک ہوگیا۔ اور معلوم رہے کہ انزال بھی نہیں ہوا جبکہ بیوی نہ دیکھتی تو اس سے کام زیادہ بگڑ جاتا۔ آیا ہم پر طلاق پڑھ گئی ہے ؟ یا ہمیں کفارہ دینا ہے؟ اس صورت میں کیا حل ہے۔

بیوی کا بیان

میرے ( بیوی کے ہوتے ہوئے) شوہر نے اپنی بچی ( جو کہ بالغ تھی) کو ہاتھ لگایا بلکہ دونوں برابر سوئے ہوئے تھے۔ بچی کہتی ہے میرا ہاتھ نفس کے اوپر لگتا رہا، مگر میں کچی نیند میں تھی۔ دونوں نے کپڑے پہنے ہوئے تھے۔ برہنہ حالت نہیں تھی۔ سردیوں کے کپڑے تھے۔ جیسے ہی میں ( یعنی بیوی) نے دیکھا تو میرا خاوند اٹھ کھڑا ہوکر مجھے غصہ کرنے لگا۔ لڑائی جھگڑا ہوا۔ اور معلوم رہے کہ انزال بھی نہیں ہوا۔ اسی حالت میں صبح ہوئی اور بات لمبی ہوگئی۔ آیا میں پوچھنا یہ چاہتی ہوں کہ میرا خاوند مجھ سے حرام ہوگیا ہے کہ نہیں؟ بعد ازاں ہم دونوں میں محبت پیدا ہوئی۔ ابھی اکٹھے رہ رہے ہیں اور پہلے سے حمل ہے۔ اس طرح طلاق پڑھے گی؟ اکٹھا رہنے کا کوئی حل ہے؟ میرے چار بچے ہیں۔ اس مسئلہ میں بہت پریشان ہوں۔ ہماری محبت وابسطہ ہے۔

جامعہ اشرفیہ کا جواب:

صورت مسئولہ میں بشرط صحت بیان اگر بیٹی کو شہوت کے ساتھ لگایا تھا اور درمیان میں کوئی ایسا کپڑا وغیرہ حائل بھی نہ تھا جو بیٹی کے بدن کی حرارت کے احساس سے مانع ہو تو ایسی صورت میں حرمت مصاہرت ثابت ہو کر لڑکی کی والدہ ہمیشہ کے لیے آپ پر حرام ہوجائیگی۔ البتہ اگر مذکورہ شرائط میں سے کوئی ایک شرط بھی موجود نہ ہو ( یعنی ہاتھ لگاتے ہوئے شہوت نہ ہو یا کوئی ایسا حائل درمیان میں موجود ہو جس کی وجہ سے بیٹی کے بدن کی حرارت محسوس نہ ہوتی ہو) تو حرمت ثابت نہ ہوگی۔

فلو أيقظ زوجته ليجامها فوصلت يده إلى بنته منها فقرصها بشهوة و هي ممن تشتهى يظن أنها أمها حرمت عليه الأم حرمة مؤبدة كذا في الفتح القدير …. ثم لا فرق في ثبوت الحرمة بين كونه عامداً أو ناسياً … ثم المس إنما يوجب حرمة المصاهرة إذا لم يكن بينهما ثوب أما إذا كان بينهما ثوب فإن كان رقيقاً بحيث تصل حرارة المموس إلى يده تثبت كذا في الذخيرة … و الفتوى على ان بنت تسع محل الشهوة لا ما دونها كذا في معراج الدارية. ( عالمگیری: 1/ 274) فقط و اللہ تعالیٰ اعلم

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں بچی کو اپنے ساتھ لٹانا اور ایسی حرکت کرنا انتہائی برا فعل ہے، جس پر توبہ و استغفار ضروری ہے۔ البتہ میاں بیوی کا نکاح ختم نہیں ہوا۔ تفصیل کے لیے ” فقہ اسلامی، مجلس نشریات اسلامی” ملاحظہ کی جائے۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved