• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

دشمنی کی وجہ سے نابالغہ لڑکی کا نکاح غیر کفؤ لڑکے سے کرانا

استفتاء

جناب عالی میں اس وقت 22 سال کی عمر میں ایم اے کی طالبہ ہوں۔ میں جب پریپ کلاس میں پڑھ رہی تھی تو میرے والدین نے میرا نکاح ایک نادان رشتہ دار لڑکے کے ساتھ کر دیا۔ جب سے میں شعور میں آئی تو میں نے اس روز سے اس نکاح سے انکار کر دیا اور اپنے والدین سے اس پر بھر پور احتجاج کیا۔ لیکن والدین نے مصلحتاً اس پر کوئی مناسب کاروائی نہ کی۔ وہ لڑکا اس وقت انتہائی بد کردار، ان پڑھ، جاہل اور آوارہ اور ذہنی طور پر پاگل ہے، اور اس نکاح کو جاری رکھنے پر بضد ہے۔ جبکہ مجھے اس نکاح کو قانونی، شرعی اور اخلاقی طور پر مکمل انکار ہے۔ اسلام عورت کو پورا تحفظ دیتا ہے۔ برائے مہربانی قرآن و حدیث کی روشنی میں اس بچپن کی خرابی سے مجھے نکلنے کی اور آزاد ہونے کی شرعی رہنمائی دیں۔

وضاحت مطلوب ہے: نکاح کی وجہ کیا تھی؟

جواب: برادری میں ایک قتل ہوا تھا جس میں ہمارے کچھ رشتہ داروں کو سزائے موت ہو گئی تھی۔ ان کی جان بچانے کے لیے صلح کی گئی تھی۔ اس صلح میں میرا نکاح کر دیا گیا۔ شروع میں والدین کا خیال تھا کہ وہ ابھی بچہ ہے بڑا ہو کر کچھ پڑھ لکھ جائے گا تو چلو مناسب جوڑ ہو جائے گا۔ مگر  ایسا کچھ  نہیں ہوا۔

نوٹ: بلوغت کے وقت مجھے چونکہ علم نہیں  تھا اس لیے اس موقع پر خاص طور سے الگ سے کوئی احتجاج نہیں کیا۔ البتہ اس سے پہلے اور بعد میں بھی اب تک میں اس پر راضی نہیں ہوں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں یہ بات واضح ہے کہ باپ نے بچی کی مصلحت کا خیال نہیں رکھا بلکہ صلح کے دباؤ میں آکر کیا ہے۔ اس لیے یہ نکاح سرے سے منعقد ہی نہیں ہوا۔ چنانچہ لڑکی آزاد ہے۔

فتاویٰ شامی  (4/ 167) میں ہے:

(و لزم النكاح و لو بغبن فاحش) بنقص مهرها و زيادة مهره (أو) زوجها (بغير كفء إن كان الولي) المزوج بنفسه بغبن (أباً أو جداً) لم يعرف منهما سوء الاختيار مجانة و فسقاً. (و إن عرف لا) يصح النكاح اتفاقاً و كذا لو كان سكران فزوجها من فاسق أو شرير أو فقير أو ذي حرفة دنيئة

لظهور سوء الاختيار فلا تعارضه شفقته المظنونة.

فقہ اسلامی (23) از ڈاکٹر مفتی عبد الواحد صاحب میں ہے:

’’باپ میں اوپر مذکورہ باتوں میں سے تو کوئی  نہ ہو لیکن مثلاً کسی دشمنی کی وجہ سے اس پر نکاح کرنے کے لیے جانے یا مالی دھمکی کا واضح دباؤ موجود ہو۔ اس صورت میں بھی باپ کی طرف سے کیا ہوا نابالغہ کا نکاح نہیں ہوا۔‘‘

جواہر الفقہ (310) میں خیر المدارس کے فتویٰ میں ہے:

’’الجواب: صورت مسئولہ میں بہ تقدیر صحت واقعہ یہ نکاح منعقد ہی نہیں ہوا تھا لڑکی مذکورہ آزاد ہے، جہاں چاہے اپنی مرضی  کے مطابق دوسری جگہ نکاح کر سکتی ہے۔ بوادر النوادر (2/ 96) میں ہے کہ اگر نابالغہ کا نکاح باپ دادا نے کیا ہے اور واقعات سے معلوم ہوا کہ طمع زر سے کیا ہے، اور لڑکی کی مصلحت پر نہیں  نظر کی، تب بھی نکاح صحیح نہ ہوگا۔ (محمد اسحاق غفر لہ، نائب مفتی مدرسہ خیر المدارس ملتان)‘‘ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved