• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

دوسری شادی کرنا اور دو بیویاں کے درمیان برابری کا حکم

استفتاء

کیافرماتے ہیں مفتیانِ کرام و مشائح عظام مسئلہ مذکورہ کے بارے میں۔

گزارش ہے کہ میری پہلی بیوی سے چاربیٹیاں ہیں اور میں دوسری بیوی کرنے کا خواہش مند ہوں۔

١۔          میں آئندہ زندگی کیسے گزاروں۔

٢۔          انصاف کیسے کروں۔

٣۔          انصاف اور برابری بیوں کے درمیان ہے ،یا بچوں کے درمیان بھی اور اگرہے تو کس طرح وضاحت فرمادیں۔

٤۔          کن کن چیزوں میں برابری ضروری ہے۔

٥۔          میرا اپنا کاروبار بھی ہے۔

٦۔          میراایک عدد ذاتی گھر بھی ہے اور والدین کہہ رہے ہیں کہ اپنا گھر پرانی بیوی کے نام کروگے۔کیا یہ گھر میں دونوں میں برابر تقسم کرسکتاہوں کہ نہیں یاپہلی بیوی کو دینا لازمی ہے،وضاحت فرمادیں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

1-2۔4۔  اگر آپ دوسری شادی کرتے ہیں تو آپ کو مندرجہ ذیل چیزوں میں دونوں بیویوں کے درمیان برابری کرنا ضروری ہے:

(1)۔ رہائش (2)۔ لباس (3)۔ کھانا پینا (4)۔ رات گذارنا۔

رہائش، لباس، اور کھانے پینے میں برابری کا مطلب یہ ہے کہ جیسی رہائش یا جیسا لباس اور کھانا پینا ایک بیوی کو دے ویسا ہی دوسری بیوی کو دے۔ البتہ اگر ایک بیوی مالدار گھرانے کی ہو اور دوسری غریب گھرانے کی ہو تو پھر ہر ایک کو ایک جیسا دینا ضروری نہیں بلکہ ہر ایک کو اس کے حسب حال دینا ضروری ہے۔

رات گذارنے میں برابری کا مطلب یہ ہے کہ جتنی راتیں ایک کے پاس گذارے اتنی ہی دوسری کے پاس گذارے۔ باقی ہمبستری میں برابری ضروری نہیں۔

3۔  اس برابری کا تعلق صرف بیویوں سے ہے بچے اس میں شامل نہیں۔ البتہ بچوں کو جو چیز دی جائے اس میں برابری بہتر ہے تاہم کسی بچے کو اس کی خاص ضرورت کے پیش نظر کوئی چیز دی جائے تو اس میں برابری ضروری نہیں۔

5۔ کاروبار دونوں بیویوں کے درمیان تقسیم  کرنا ضروری نہیں۔

6۔ مکان نہ تو دونوں بیویوں میں تقسیم کرنا ضروری ہے اور نہ ہی پہلی کے نام کروانا ضروری ہے۔ البتہ دونوں کو رہائش دینا آپ کے ذمے لازم ہے۔

في الشامية:

(يجب) …( أن يعدل) أي أن لا يجوز (فيه) أي في القسم بالتسوية في البيتوتة (وفي الملبوس والمأكول) والصحبة (لا في المجامعة). قال الشامي تحت قوله (وفي الملبوس والمأكول) أي والسكنى، ولو عبر بالنفقة لشمل الكل…….. قال في البحر: قال في البدائع يجب علي التسوية بين الحرتين والأمتين في المأكول والمشروب والملبوس والسكنى والبيتوتة…. (4/ 375)

وفي الشامية أيضاً:

والحق أنه  على قول من اعتبر حال الرجل وحده في النفقة. وأما على القول المفتى به من اعتبار حالهما فلا، فإن إحداهما قد تكون غنية والأخرى فقيرة، فلا يلزم التسوية بينهما مطلقاً في النفقة. (4/ 375)

في رد المحتار:

وفي الخانية ولا بأس بتفصيل بعض الأولاد في المحبة لأنها عمل القلب، وكذا في العطايا إن لم يقصد به الإضرار. (8/ 583)

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved