• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

مصنوعی طریقہ سے آئے ہوئے دودھ کے پینے سے رضاعت کا حکم

استفتاء

اگر ایک معصوم نوزائیدہ بچے کی حقیقی ماں فوت ہو چکی ہو اور اس بچے کی زندگی اور بقا کا سرکٹ جاری رکھنے کے لیے اسے کسی ایسی دوسری عورت کا دودھ پلایا جائے جس کا اپنا ذاتی بچہ ہو جو آٹھ سال کا ہو چکا ہو، اور اس عورت کا اپنا دودھ بھی پستانوں میں خشک ہو چکا ہو، اور ایسی صورت میں مصنوعی ادویات کھلا کر عورت کے پستانوں میں دودھ جاری کرایا جائے اور پھر نو زائیدہ بچے کو حالت شیر خوارگی میں دودھ پلا دیا جائے اور وہ بچہ اس عورت کا دودھ پی لے تو کیا:

1۔ طفلِ معصوم کے لیے وہ عورت جس کا وہ دودھ پی چکا ہےرضاعی ماں ثابت ہو جائے گی اور اس عورت پر دودھ پلانے کی وجہ سے شرعاً رضاعی ماں کا اطلاق ہو گا؟

رضاعی بھتیجی سے نکاح

2۔ اگر رضاعی ماں کے حکم میں آتی ہو تو کیا اس صورت میں اس عورت کے بڑے بیٹے کی پیدا ہونے  والی بیٹی سے بلوغت کے بعد یا قبل اس معصوم نو زائیدہ بچے سے نکاح درست ہو گا؟ اگر معصوم بچہ بھی سن شعور کو  چھو کر بالغ ہو جائے تو بلوغت کے بعد یا قبل بلوغت نکاح کا عمل جائز ہو گا؟

رضاعت کی صورت میں نکاح کے بعد رخصتی کرانا

3۔ اگر نکاح ہو چکا ہو تو کیا رخصتی کا عمل ہو سکے گا؟

رضاعت کا ثبوت

4۔ اگر یہ نکاح طرفین و جانبین کے شرعی اصولوں سے ناواقفیت کے نتیجے میں ہو اور نکاح کے عمل کا مرحلہ مکمل ہو چکا ہو مگر رخصتی ابھی باقی ہو تو معصوم بچے کی ذمہ دار اگر تقاضا کریں تو رخصتی کر دی جائے یا نہ کی جائے؟ اگر مسئلہ بتایا جائے اور وہ حضرات ضد پر اڑ جائیں یا کہنے لگیں کہ یہ سوچی سمجھی سازش ہے اور جان بوجھ کر ایسا ڈرامہ رچایا جا رہا ہے تاکہ ہمیں شادی کے عمل سے دور رکھا جائے تو تنازعہ کی اس کشیدگی کو کیسے ختم کیا جائے؟

نکاح ختم کرنے کا طریقہ

5۔ اگر ایسی صورت میں نکاح نا جائز ہو، تو پھر کیا طلاق دینا ہو گی یا  نہیں؟ طلاق کی عدت کتنی ہو گی اور طلاق کی صورت کیا ہو گی؟ شرعاً جواب سے سر فراز فرمائیں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

1۔ یہ عورت بچے کی رضاعی ماں بن جائے گی۔

(هو) لغة مص الثدي و شرعاً (مص من ثدي آدمية) و لو بكراً أو ميتة أو آيسة. (رد المحتار: 4/ 386)

2۔ اس عورت کے بیٹے کی بچی سے اس بچے کا نکاح جائز نہیں، کیونکہ یہ بچی اس بچے کے لیے رضاعی بھتیجی بنے گی، اور رضاعی بھتیجی سے نکاح درست نہیں۔

(و لا) حل (بين الرضيعة و ولد مرضعتها) أي التي أرضعتها (و ولد ولدها) لأنه ولد الأخ. (أيضاً)

3۔ جب نکاح ہی جائز نہیں تو رخصتی کا عمل کیونکر درست ہو سکتا ہے۔

4۔ اگر ناواقفیت میں یہ نکاح ہو چکا ہو تو پھر رخصتی کرانا جائز نہیں، البتہ اگر لڑکے کے سرپرست اس رضاعت کا انکار کریں تو رضاعت ثابت کرنے کے لیے دو مرد یا ایک مرد اور دو عورتوں کی گواہی ضروری ہو گی، ورنہ رضاعت کے احکام لاگو نہ ہوں گے۔

(و)  الرضاع (حجته حجة المال) و هي شهادة عدلين أو عدل و عدلتين. قوله: (حجته الخ) أي دليل إثباته و هذا عند الإنكار لأنه يثبت بالإقرار مع الإصرار. (رد المحتار: 4/ 409)

5۔ اگر نکاح ہو چکا ہو تو طلاق دینا ضروری نہیں، بلکہ بیوی کا یوں کہہ دینا بھی کافی ہو گا کہ "میں نے اس نکاح کو ختم کیا”۔

(و يجب مهر المثل في نكاح فاسد) ….. (و) يثبت (لكل واحد منهما فسخه و لو بغير محضر من صاحبه، دخل بها أو لا) في الأصح خروجاً عن المعصية فلا ينافي وجوبه بل يجب علی القاضي التفريق بينهما. قوله: (بل يجب علی القاضي) أي إن لم يتفرقا. (رد المحتار)

نیز اگر صحبت ہو چکی ہو تو تین حیض عدت ہو گی۔

(و تجب العدة بعد الوطء) لا الخلوة للطلاق لا للموت (من وقت التفريق). قوله: (للطلاق) … و المراد أن الموطوءة بنكاح فاسد سواء فارقها أو مات عنها تجب عليها العدة التي هي عدة طلاق و هي ثلاث حيض، لا عدة موت و هي أربعة أشهر و عشراً. (رد المحتار: 4/ 268) فقط و الله أعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved