• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

مشترکہ کھاتے میں یتیموں کا مال علیحدہ کرنا ضروری ہے یامشترک برقرار رکھا جاسکتاہے؟

استفتاء

ایک مسئلہ کے بارے میں راہنمائی فرمائیں کہ تین بھائی اکھٹے رہتے ہیں ،جن کے والد کی متروکہ زمین ،کھانا پینااورخرچ اخراجات سب مشترکہ ہیں اورسب کماتے اور خرچ کرتے ہیں ان میں ایک بھائی انتقال کرگئے ہیں جس کے چھوٹے چھوٹے بچے رہ گئے ہیں  باقی دو بھائیوں کے بچے بڑے اور کمانے کے قابل ہیں بعض تعلیم حاصل کرتےہیں جن پر مشترکہ مال سے خرچ کیا جاتا ہے۔

اب سوال یہ  ہےکہ فوت شدہ بھائی کے بچے چھوٹے ہیں ان بچوں کا اپنے باپ کے حصے کے مال  اور جائیداد میں جو  حصہ بنتا ہے اس کو حسب سابق  مشترکہ برقرار رکھا جاسکتا ہے یا ان کا حصہ الگ کرنا ہوگا؟

وضاحت مطلوب ہے:کہ ان بچوں کی عمریں کتنی ہیں؟اوریہ بچے کتنے ہیں اور دوسرے بھائیوں کے بچے کتنے ہیں؟

جواب وضاحت: ان بچوں کی عمریں دس سال اور اس سے کم ہیں۔ یہ دوبہن چار بھائی ہیں بڑی بچی کی عمر دس سال ہے باقی اس سے چھوٹے ہیں۔ متوفی کے دوسرے بھائیوں میں سے ایک( جو کاروبار نہیں کرتااس )کے چار بیٹے ہیں  جن میں ایک عالم ہےجس کی کوئی آمدن نہیں، ایک سرجن ڈاکٹر ہے جس کی تنخواہ بھی ہے اور اپنا کلینک بھی ہے،ایک سرکاری ماسٹر ہے،ایک میڈیکل کالج میں ایم بی بی ایس کورس کررہاہے اور دو ان کی بہنیں ہیں  جو شادی شدہ ہیں۔

متوفی کے دوسر ےبھائی( جو ٹھیکدار ہیں اس)کے چار بیٹے ہیں  جن میں ایک عالم ہے جو کاروبار کرتا ہے ایک وکیل ہے جو وکالت کا کام کرتا ہے ایک میڈیکل کالج میں ایم بی بی ایس  کورس کرتا ہے ایک چھوٹاہے  جوسکول پڑھتا ہے اور ان کی تین بہنیں ہیں  جن میں دو شادی شدہ ہیں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں یتیموں کا مال مشترکہ برقرار رکھا جاسکتاہے تاہم ان کے ضروری اخراجات سے جو مال بچ جائے اس کا حساب کتاب رکھا جائے اور اسے محفوظ رکھا جائے یا کسی نفع بخش کاروبار میں لگادیا جائے۔

تفسیر البغوی(1/254)میں ہے:

ويسألونك عن اليتامى قال ابن عباس وقتادة: لما نزل قوله تعالى: "ولا تقربوا مال اليتيم إلا بالتي هي أحسن” (152-الأنعام) وقوله تعالى "إن الذين يأكلون ‌أموال ‌اليتامى ظلما” الآية (10-النساء) تحرج المسلمون من ‌أموال ‌اليتامى تحرجا شديدا حتى عزلوا ‌أموال ‌اليتامى عن أموالهم حتى كان يصنع لليتيم طعام فيفضل منه شيء فيتركونه ولا يأكلونه حتى يفسد، فاشتد ذلك عليهم فسألوا رسول الله صلى الله عليه وسلم فأنزل الله تعالى هذه الآية: {قل إصلاح لهم خير} أي (الإصلاح لأموالهم) (2) من غير أجرة ولا أخذ عوض خير لكم وأعظم أجرا، لما لكم في ذلك من الثواب، وخير لهم، لما في ذلك من توفر أموالهم عليهم، قال مجاهد: يوسع عليهم من طعام نفسه ولا يوسع من طعام اليتيم {وإن تخالطوهم} هذه إباحة المخالطة أي وإن تشاركوهم في أموالهم وتخلطوها بأموالكم في نفقاتكم ومساكنكم وخدمكم ودوابكم فتصيبوا من أموالهم عوضا عن قيامكم بأمورهم وتكافئوهم على ما تصيبون من أموالهم {فإخوانكم} أي فهم إخوانكم، والإخوان يعين بعضهم بعضا ويصيب بعضهم من أموال بعض على وجه الإصلاح والرضا {والله يعلم المفسد} لأموالهم {من المصلح} لها يعني الذي يقصد بالمخالطة

احسن الفتاوی(8/122)میں ہے:

یتیموں کے ساتھ مشترکہ مال  سے مہمان کو کھانا کھلانااور  مسکین کو دینا جائز نہیں ،مہمان اور مسکین کے لئے کھانا حرام ہے ۔یتیموں کے مصارف کا صحیح حساب رکھنا فرض ہے مہمان نوازی وغیرہ بالغ شرکاء اپنے پاس سے کریں ۔البتہ اگر بالغ شرکاء الگ سے بھی کماتے ہوں اور اپنی کمائی کو مشترک کھاتے میں جمع کردیتے ہوں ،اور نجی کمائی اتنی زیادہ ہو کہ مشترک کھاتے سےمہمان نوازی  کے مصارف  اداکرنے کی صورت میں یتامی کی حق تلفی نہ ہو نے کا یقین ہوتو اس کی گنجائش ہے۔

الجامع لاحکام القرآن میں ہے:قوله تعالى: (وإن تخالطوهم فإخوانكم) هذه المخالطة كخلط المثل بالمثل كالتمر بالتمر. وقال أبو عبيد: مخالطة اليتامى أن يكون لأحدهم المال ويشق على كافله أن يفرد طعامه عنه، ولا يجد بدا من خلطه بعياله فيأخذ من مال اليتيم ما يرى أنه كافيه بالتحري فيجعله مع نفقة أهله، وهذا قد يقع فيه الزيادة والنقصان، فجاءت هذه الآية الناسخة بالرخصة فيه

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved