• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

مطلقہ کے جہیز اور اس کو دیے گئے زیورات و اشیاء میں بچی کا حق

استفتاء

عرض ہے کہ میرے بیٹے*** کی شادی***کے ساتھ بعوض حق مہر ایک لاکھ روپے 2007ء میں ہوئی۔ اور یہ دونوں ایک بچی بنام ***کے والدین بنے۔ میاں بیوی کی ناچاکی کے باعث اکتوبر 2012ء کو بذریعہ یونین کونسل ثالثی کے، طلاق ثلاثہ کا نوٹس بھیجا گیا اور فروری 2013ء کو طلاق کا سرٹیفیکیٹ بعد از ادائیگی مہر جاری ہوا۔

طلاق سے تقریباً ایک سال قبل ہی مریم کو اس کی ماں کی رضامندی اور اس کے میکے خاندان کے متفقہ فیصلے کے مطابق والد کے حوالے کردیا گیا اور آج تک بچی مریم اپنے والد کے پاس ہی ہے۔ گذارش ہے کہ جو سامان شادی کے وقت: (۱) جہیز ( لڑکی کے ماں باپ کی طرف سے ملنے والا سامان اور زیور)، ۲۔ برّی ( لڑکے کے والدین کی طرف سے دیا گیا سامان اور زیور)، طلاق سے قبل لڑکی اپنے والدین کے گھر جانے سے پہلے جہیز کا زیور اور خاوند کی طرف سے تحفے میں دیا گیا طلائی سیٹ اپنے ہمراہ لے گئی تھی۔

ان تمام اشیاء اور زیور میں سے مطلقہ خاتون اور بچی جو کہ والد کے پاس ہے دونوں کے شرعی حقوق کے بارے میں قرآن و سنت کے مطابق میری رہنمائی فرمائیں۔ یہ درخواست دینے تک لڑکے اور لڑکی نے دوسری شادی نہیں کی ہے۔ مذکورہ بالا چیزوں کے بارے میں زبانی یا تحریری کوئی بات طے نہیں ہوئی کہ یہ کس حیثیت سے دی جارہی ہیں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ تمام اشیاء میں بچی مریم یاسر کا کوئی حق نہیں۔ مطلقہ خاتون سنیہ ساجد کے حق کی تفصیل درج ذیل ہے:

۱۔ وہ جہیز جو لڑکی کے ماں باپ کی طرف سے لڑکی کو دیا گیا تھا وہ لڑکی یعنی سنیہ کی ملکیت ہے۔

۲۔ خاوند کی طرف سے تحفةً دیا گیا طلائی سیٹ بھی مطلقہ کا ہے۔

۳۔ لڑکے کے والدین کی طرف سے دیے گئے زیور کی ملکیت کا فیصلہ لڑکے کے خاندان کے رواج پر دیا جائے گا۔ اگر ان کے

خاندان میں رواج عاریتاً دینے کا ہو تو عاریت پر اور اگر ملکیت پر دینے کا رواج ہو تو ملکیت سمجھا جائے گا۔

۴۔ زیور کے علاوہ لڑکی کو سسرال کی طرف سے جو اور سامان ملا ہو مثلاً کپڑے جوتیاں اور میک اپ کا سامان تو وہ بھی لڑکی کا ہے۔

جهزا بنته بجهاز سلمها ذلك ليس له الاسترداد منها و لا لوارثه. ( شامی: 3/ 155)

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved