• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

شیل لیک

استفتاء

شیل لیک(Shellac) ایک اجزائے ترکیبی ہے جو لاکھ (LAC) نامی ایک کیڑے کے لعاب سے تیا ر کیا جاتاہے۔ ایک اندازے کے مطابق شیل لیک(Shellac) کی سالانہ پیداوار تقریباً پچاس ہزار ٹن ہے۔ اور یہ مختلف دواؤں اور کھانے پینے والی چیزوں مثلاً چاکلیٹ،ٹافیوں وغیرہ کی سطح پر چمک پیداکرنے کے لیے استعمال ہوتاہے ۔ اور اس کے علاوہ بھی مختلف مقاصد کے لیے استعمال کیا جاتاہے۔

لاکھ (LAC) نامی یہ کیڑا اپنا لعاب درختوں پر بناتاہے اور یہ لعاب سخت گوند کی شکل  اختیار کرجاتاہے۔ اس سخت گوند کو جب درختوں سے اتارا جاتاہے تو بعض اوقات لاکھ کے مرے ہوئے کیڑے اور اس کے انڈے بھی اس گوند کے ساتھ چپکے ہوئے ہوتے ہیں، پھر اس تمام مواد کو جس میں لاکھ نامی کیڑے کا لعاب، مرے ہوئے کیڑے، ان کے انڈے، درخت کی شاخیں اور پتے شامل ہوتے ہیں ان سب کو چکی میں پیسا جاتاہے، پھر اس پسے ہوئے مادے کو اس طرح سے چھان لیا جاتاہے کہ گوند کے علاوہ دوسرے مادے اس سے الگ ہوجائیں۔ پھر اس گوند کو آگ پر 92 سے 98 سینٹی گریڈ درجہ حرارت تک پگھلایا جاتا ہے  اور پگھلانے کے بعد اس مواد کو دوبارہ چھانا جاتاہے، اور (99فیصد) قوی گمان ہوجاتا ہے کہ اس صاف شدہ گوند میں مذکورہ کیڑے کے اجزاء باقی نہیں رہے ہونگے۔ البتہ سو فیصد یقین کے ساتھ کہنا مشکل ہے کہ یہ مواد کیڑوں کے اجزاء سے مکمل طور پر پاک ہے۔

کیا مذکورہ بالا طریقے سے تیا کردہ مواد یعنی شیل لیک (Shellac) کا کھانا اور دواء میں استعمال کرنا  حلال ہے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

Shellac کے مذکورہ طریقے سے حاصل شدہ مواد کا دواؤں یا غذاؤں میں استعمال کرنا شرعاً حلال اور جائزہے۔

اس کی دو وجہیں ہیں:

1۔پہلی وجہ یہ ہے کہ اتنی کثیر مقدار کے مادے میں اتنی قلیل مقدار کیڑوں کا پگھل کر اس مادے میں مل جانا عرفاً مستخبث (گھناؤنا) نہیں سمجھا جاتا۔حالانکہ ان کیڑوں کو کھانے کی حرمت کی علت ہی ان کا مستخبث(گھناؤنا ) ہونا ہے اور جب حرمت کی علت ہی باقی نہ رہی تو حرمت کا قول کرنا بھی شرعاً درست نہ رہا  جب کہ کوئی اور علت یعنی نجاست یا ضرریا نشہ وغیرہ بھی  ان میں مفقود ہے۔چنانچہ امام غزالی ؒ کی احیا ء العلوم میں ہے:

ومالم يذبح ذبحاً شرعياً أومات فهو حرام ولايحل إلا ميتتان :السمك والجراد،وفي معناهما مايستحيل من الأطعمة كدودالتفاح والخل والجبن فإن الاحتراز منهما غير ممكن فأما إذا أفردت وأكلت فحكمها حكم الذباب والخنفساء والعقرب وكل ما ليس له نفس سائلة لا سبب في تحريمها إلا الاستقذار ولو لم يكن لكان لا يكره فإن وجد شخص لا يستقذره لم يلتفت إلي خصوص طبعه فإنه التحق بالخبائث لعموم الاستقذار فيكره أكله كما لو جمع المخاط وشربه كره ذالك وليست الكراهة لنجاستها فإن الصحيح أنها لا تنجس بالموت  إذأمر رسول الله ﷺ بأن يمقل الذباب في الطعام إذا وقع فيه وربما يكون حاراً ويكون ذلك سبب موته ولو تهرت نملة أو ذبابة في قدر لم يجب إراقتها إذ المستقذر هو جرمه إذا بقي له جرم ولم ينجس حتی يحرم بالنجاسة وهذا يدل علی أن تحريمه للا ستقذار.

نیز فتاویٰ عالمگیری میں ہے:

العرق إذا تقاطر فی العجين فالقليل منه لا يمنع الأكل

حالانکہ آدمی کا پسینہ طبعاً مستقذر (گھناؤنا ) ہے لیکن اس کے باوجود آٹے میں اگر قلیل مقدار پسینے کی مل جائے تو اس آٹے کا کھانا حلال ہے۔بحر الرائق میں ہے:

وسئل (علي بن احمد) عن عرق الآدمي ونخامته ودمعه إذا وقع في المرقة أو في الماء هل يأكل المرقة ويشرب الماء قال نعم مالم يغلب ويصير مستقذراً طبعاً (ص :339 ج:8)

آدمی کا پسینہ ،رینٹ بلغم اور آنسو یہ سب چیزیں طبعاً مستقذر (گھناؤنی) چیزیں ہیں لیکن یہ چیزیں شوربے یا پانی میں اتنی  قلیل اور مغلوب مقدار میں ہوں کہ جس سے شوربا  یا پانی طبعاً مستقذر نہ ہو توایسے شوربے اور پانی کا کھانے کے طور پر استعمال کرنا جائز ہے۔

نیز مفتی رشیداحمد لدھیانویؒ احسن الفتاویٰ میں تحریر فرماتے ہیں:

چونکہ حشرات الارض کی حرمت کی اصل علت استخباث ہے اور یہ قلیل مقدار میں پائی جاتی ہے۔ طعام وشراب کثیر مقدار میں ہوتو یہ علت نہیں پائی جاتی  لہذا بڑی دیگ میں  مکھی گرجائے تو اس کا استعمال جائز ہے ۔(ص:129 ج :8)

نیز طبی جوہر (مؤلفہ مولانا حکیم مصطفٰے صاحب ومصدقہ حضرت حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانویؒ  )میں ہے:

اور جب خبیث اور غیر خبیث مل جاویں تو اگر استخباث  باقی رہے تو حرمت کا ورنہ حلت کا حکم ہوگا۔ جیسے دیگ میں مکھی پڑجائے کہ اگر مکھی شوربے میں حل نہیں ہوئی تو اس مکھی کا کھانا جائز نہیں اور اگر وہ گھل مل  گئی تو ایک دیگ میں مکھی کا مل  جانا عرفاً مستخبث نہیں لہذا وہ شوربا حلال ہے حالانکہ اجزاء مکھی کے اس میں بالیقین موجود ہیں ۔طبی جوہر مندرجہ  بہشتی زیور /108 حصہ نہم

ان تمام  حوالہ جات سے معلوم ہوا کہ جب  مستقذر شے غیر مستقذر شے سے مل جائے  تو اگر استقذار باقی رہے تو حرمت کا حکم ہوگا ورنہ حلت کا حکم ہوگا۔

نوٹ:مستقذر شے کے قلیل ہونے کی صورت میں جو  حلت کا حکم ہے وہ اسی وقت ہے جب مستقذر شے غیر مستقذر شے  میں گھل مل جائے اور اگر مستقذر شے غیر مستقذر شے میں گھلی ملی نہ ہوتو  مستقذر شے کے کھانے کی حلت کا حکم نہ ہوگا ،جیسا کہ طبی جوہر کے حوالہ سے معلوم ہوا۔

2۔دوسری وجہ یہ ہے کہ چونکہ ان کیڑوں کا اس مادہ سے جداکرنا متعذر ہے اس لئے ضرورت اور عموم بلوی کی وجہ سے دواء یا غذا کے طور پر استعمال کرنا جائز ہے۔چنانچہ عالمگیری میں ہے:

سن آدمي طحن في وقر حنطة لا يؤكل ولايؤكله البهائم بخلاف ما يقشر من جلدة كفه قدر جناح الذباب أو نحوه واختلط بالطعام للضرورة ./ص:339 ج:5

اور نفع المفتی والسائل  لمولانا عبد الحي الکھنویؒ میں ہے:

الاستفسار: هل يحل أكل الدود اللتي تكون في التفاح وغيره معه ؟

الاستبشار : نعم لتعسر الاحتراز منه وأما إذا أفردت و أكلت فحكمها حكم الذباب كذا في مطالب المؤمنين /ص:110

نیز حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ امداد الفتاویٰ میں ایک سوال کے جواب میں تحریر فرماتے ہیں:

سوال: سرکہ یا پھل مثل گولر وغیرہ میں جو کیڑے پیدا ہوجاتےہیں ان  کیڑوں کا کھانا جائز ہے یا نہیں؟ بہتیرے سرکہ میں گل کر مختلط ہوجاتے ہیں جن سے احتراز نا ممکن ہے الجواب : في الشامي عن الطحطاوي ويؤخذ منه ان أكل الجبن أو الخل أو الثمار كالنبق بدوده لا يجوز ان نفخ فيه الروح. اس سے معلوم ہوا کہ ایسے کیڑوں کا کھانا جائز نہیں اور جو مخلوط ہوگئے وہ ضرورت کی وجہ سے عفو ہیں  کما قالوا لا نزح بخرء حمام و عصفور مع  حرمة تناولهما ./ص   :103 ج:4

باقی جن عبارات میں مطلقاً حرمت کا ذکر ہے اوّلاً تو وہ عبارات اصحاب مذہب سے منقول نہیں علامہ طحطاوی نے خانیہ وغیرہ میں حشرات الارض پر قیاس کرکے پھل وغیرہ کے کیڑوں  کا حکم ذکر فرمایا ہے۔چنانچہ مولاناظفراحمد عثمانیؒ امداد الاحکام میں تحریر فرماتے ہیں:

قلت ولايخفی  أن دودالطعام والثمار ليس من حشرات الأرض المنصوص حرمتها في المذهب وإنما أخذ الطحطاوي تحريمه من مفهوم عبارة قاضي خان وغيره فليس من المنصوص تحريمه في المذهب وقد ذهب الشافعية إلي أكل دود الفاكهة معها فكذا دود الطعام إذا تعسر تميزه /ص: 308 ج:4

اور ثانياً وہ عبارات مندرجہ بالا عبارات کی روشنی میں اس صورت پر محمول ہو سکتی ہیں کہ جب مستقذر شے  غیر مستقذر شے کے ساتھ یاتو گھلی ملی نہ ہو یا مستقذر شےکثیر ہو یا مستقذر شے کا  غیر مستقذر  سے جدا کرنا متعسر و متعذر نہ ہو ۔ فقط واللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved