• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

شرکاء کا مشترکہ ساتواں حصہ حضور ﷺ کی طرف قربانی کرنا

استفتاء

گذارش ہے کہ قربانی کے موقع پر متعدد مرتبہ یہ نوعیت پیش آتی ہے کہ چھ افراد اکٹھے ہو جاتے ہیں، ساتواں فرد آخری وقت تک نہیں مل پاتا۔ تو آخر میں چھ افراد مل کر ساتویں حصہ کا خرچہ برداشت کرتے ہیں اور سب کہتے ہیں یہ حصہ ﷺ کے لیے کر لیتے ہیں۔ اور اس ساتویں حصہ کا گوشت بھی چھ افراد آپس میں تقسیم کرتے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ کیا اس ساتویں حصہ میں چھ افراد شریک ہو سکتے ہیں؟ اس سے کسی کی قربانی میں کوئی فرق تو نہیں پڑے گا؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

چھ افراد مل کر ساتواں حصہ حضور ﷺ کی طرف سے قربانی کریں یا کسی اور شخص کی طرف جائز ہے۔

تنویر االابصار (9/539) میں ہے:

( وإن مات أحد السبعة ) المشتركين في البدنة ( وقال الورثة اذبحوا عنه وعنكم صح ) عن الكل استحسانا لقصد القربة من الكل.

و قال العلامة ابن عابدين تحت قوله (لقصد القربة من الكل) هذا وجه الاستحسان . قال في البدائع لأن الموت لا يمنع التقرب عن الميت بدليل أنه يجوز أن يتصدق عنه ويحج عنه ، وقد صح أن رسول الله صلى الله عليه وسلم ضحى بكبشين أحدهما عن نفسه والآخر عمن لم يذبح من أمته وإن كان منهم من قد مات قبل أن يذبح. اهـ ……………………… فقط و الله تعالى أعلم

بعض حضرات اس روایت سے یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ مشترکہ خاندان اور جوائنٹ فیملی میں سے ایک فرد بھی قربانی کر دے تو کافی ہے، چاہے گھر میں سے کوئی لوگ قربانی کے وجوب کے معیار پر پورا اترتے ہوں۔

لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ اس روایت کا قربانی کے وجوب سے تعلق ہی نہیں ہے کیونکہ نہ تو سائل نے وجوب سے متعلق سوال کیا نہ حضرت ابو ایوب نے اپنے جواب میں اس کو ذکر فرمایا بلکہ اس میں  دو باتیں بیان کی گئی ہیں:

1۔ حضور ﷺ کے زمانے میں لوگوں کی معاشی حالت بیان یہ تھی کہ بمشکل خاندان کا ایک بندہ قربانی کے معیار پر پورا اترتا تھا۔

دوسری بات یہ کہ تب لوگ اخلاص کے ساتھ قربانی کرتے تھے مگر اب لوگ فخر و مقابلے کے لیے بھی قربانی کرنے لگے۔ ظاہر ہے کہ ان دونوں باتوں کا وجوب سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس لیے اس روایت سے استدلال کر کے صاحب نصاب لوگوں کو چھوٹ فراہم کرنا کسی طرح بھی درست نہیں۔

وجوب کے سلسلے میں ایک اور حدیث ہے جس کے الفاظ یہ ہیں حضور ﷺ نے فرمایا:

من وجد سعة و لم يضح فلا يقربن مصلانا. (مسند أحمد)

ترجمہ: جس شخص کے پاس بھی قربانی کی وسعت ہو اور وہ قربانی نہ کرے وہ ہماری عید گاہ کے قریب بھی نہ بھٹکے۔

قابل غور بات یہ ہے کہ اس حدیث میں قربانی کے وجوب کو ہر ہر صاحب استطاعت شخص سے متعلق کیا گیا ہے فیملی یا گھرانے کو سامنے نہیں رکھا گیا۔ چنانچہ صحیح اور واضح بات یہ ہے کہ قربانی کا وجوب ہر صاحب استطاعت شخص پر الگ ہے چاہے خاوند یا بیوی، باپ ہو یا بیٹا۔

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved