• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

طلاق ثلاثہ

استفتاء

عورت کا بیان

میں خدا کو حاضر و ناظر جان کر جو کہوں گی سچ کہوں گی۔

السلام علیکم و رحمة اللہ و برکاتہ: میں رابعہ عطاء بنت عطاء محمد عرض کرتی ہوں کہ میرے شوہر*** ولد***نے  آج سے پانچ سال پہلے جب میرے بیٹے ہونے تھے، 25 اکتوبر 2010ء میں غصے میں تھوڑی سی لڑائی کی وجہ سے طلاق کے الفاظ کہنے لگا تھا، لیکن ان کی بہن نے منہ پر ہاتھ رکھ کر منہ بند  کیا، اور اس نے مکمل الفاظ ادا نہیں کیے، میں نہیں جانتی خدا گواہ ہے میرے علم میں نہیں ہے، میں نے نہیں سنا، اس وقت ایک یا ڈیڑھ ماہ کا حمل تھا۔ کیونکہ 6-8 اگست کو میرے جوڑے پیدا ہوئے، اس لیے مکمل نو (9) ماہ نہیں ہوئے تھے، لیکن یہ سچ ہے کہ میں حمل سے تھی۔ لیکن رجوع بہت بار ہوا، دو یا تین دن سے زیادہ نہیں گذرے تھے۔ آپ سمجھ گئے ہوں گے۔

دوسری بار تقریباً دسمبر 15 یا 16 کو اس نے لڑائی میں (خدا جانتا ہے کہ میں نے کبھی زبان درازی نہیں کی) طلاق دی، الفاظ یہ تھے، صرف ایک بار کہا ’’میں نے تمہیں طلاق دی، جا ماں کے گھر چلی جا‘‘۔ اس واقعہ کے بعد میں نے کسی سے ذکر نہیں کیا، پہلے اس کو منایا، جس میں تین سے چار دن کے اندر اس نے رجوع کیا۔ اس نے ایک سے دو ماہ بنا لڑائی کے یا سکون سے گذارے، لیکن اس کے بعد پھر اس نے لڑائی شروع کی، چھوٹی چھوٹی بات پر غصہ ہوتے، تو چپ رہنا شروع کر دیا، بلکہ بات چیت ہی ضرورت کے مطابق کرتے۔ اس نے طلاق دی ہے اس نے خود میرے والد کے سامنے اقرار کیا، تو میں نے بھی گواہی دی، کیونکہ جھوٹ نہیں بولا جا سکتا اس معاملے میں، لیکن پورا سال بات چیت کم ہونے یا نہ ہونے کے باوجود اس نے جب چاہا رجوع کیا، میاں بیوی والا تعلق کبھی نہیں رکا۔

پھر 8 دسمبر 2015ء کو بوقت 40: 2  پر نیند سے اٹھے اور کہا تیری بہن کے بچے کیوں آئے ہیں، جن کو میں نے پانچ منٹ کے اندر اندر ہی اس کے سامنے ہی بہانے سے واپس بھیج دیا، کیونکہ یہ ان سے ملنا نہیں چاہتا تھا۔ بچے تھے جن کی عمر 7 سال اور 9 سال کی ہے۔ پاس میں ہی میری والدہ کا گھر ہے، جہاں وہ آئے تھے، اس لیے کسی کو بتائے بغیر ادھر بھی آ گئے، اس میں لڑائی ہوئی، میں نے جواب نہیں دیا، اس نے کہا کہ ’’میرے سامنے اپنی بہن کو فون کر اور کہو کہ میرے گھر نہ آیا کروں، میں نے نہیں ملنا‘‘۔ فون پر نمبر ملانے کے لیے نمبر ڈھونڈ رہی تھی، تو وہ بولا: ’’اگر تم نے ان سب کو نہیں چھوڑا، تو میں تم کو چھوڑ دوں گا‘‘۔ میں نے کہا ’’چھوڑ تو تم نے دیا ہے‘‘ میں نے اتنا ہی کہا تھا، غصہ مجھے بھی تھا کہ میں صبر سے اس کی ہر بات مان کر رہ رہی ہوں، لیکن اس کا غصہ کبھی ختم نہیں ہوتا، یہ بولتا بہت کم ہے، بلکہ بولتا ہی نہیں ہے سب سے ہی۔ پھر اس نے غصہ سے کہا  ’’میں نے تمہیں طلاق دی‘‘۔ یہی الفاظ تین بار کہے، پھر میں نے اسی وقت سب کو بتا دیا، تو اس کو سب نے گھر سے نکال دیا۔ اب وہ بہت منت سماجت کر رہا ہے، اور میرے بھی تین بیٹے ہیں بڑا 8 سال کا، چھوٹے ساڑھے چار سال کے ہیں۔ لیکن اس نے ایک یا دو دفعہ میری غلطی پر صرف ایک تھپڑ مارا ہے، ورنہ کبھی مار پیٹ نہیں ہوئی۔

اس مسئلہ کا حل جو بھی ہے، واضح کریں۔ (اللہ حافظ)۔ میں نے جو بھی لکھا ہے سچ لکھا ہے، میں قسم کھاتی ہوں۔

شوہر کا بیان

میں *** ولد *** خدا کو حاضر و ناظر جان کر یہ بیان لکھ رہا ہوں کہ پانچ سال پہلے یں نے اپنی بیگم رابعہ عطاء کو کہا کہ ’’میں تمہیں طلاق‘‘۔ اتنا  کہا تھا کہ میری بہن نے مجھے روک دیا، اس کے پانچ سال بعد 15 دسمبر 2014ء کو کہا ’’میں نے طلاق دی‘‘۔ اور پھر 8 دسمبر 2015ء کو غصے میں آکر جھگڑے کی وجہ سے تین بار ’’طلاق دی‘‘ کہا۔ ان طلاقوں کے دوران ہم آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ رجوع کرتے رہے ہیں، ایک دوسرے کے ساتھ صلح کی اور رجوع کیا۔ آیا یہ طلاق ہو گئی ہے یا نہیں؟ اس لیے کہ ہمارے تین بچے ہیں جن کی وجہ سے ہم آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ رجوع کرنا چاہتے ہیں۔

مذکورہ سوال کا زبانی جواب دیا گیا۔

عدالتی خلع کی شرعی حیثیت

محترم مفتی صاحب السلام علیکم! کیا فرماتے ہیں علماء کرام و مفتیان عظام دریں مسئلہ کہ مسماة *** بی بی کا شرعی نکاح ہوا، جس کا ثبوت نکاح نامہ کا عکس اس فتویٰ کے ساتھ منسلک ہے۔ نکاح سے پہلے لڑکا مسمٰی *** نے اور اس کے والدین نے *** بی بی کو جھوٹے وعدے اور سبز باغ دکھائے، اور عملیات و تعویذات کے ذریعہ اثر ڈال کر مسماة *** کے والدین کو اس رشتہ پر آمادہ کیا۔ چند چھوٹے دعوے اور جھوٹی بے بنیاد پیش کشوں کا ذکر کچھ اس طرح ہے:

1۔ کہ ہم *** سے روٹیاں نہیں پکوائیں گے، پھر شادی کے بعد تنور پر روٹیاں پکوائیں، تجربہ نہ ہونے کی وجہ سے بچی کا ہاتھ جل گیا۔

2۔ لڑکا *** نے میڈیکل سٹور کا ڈسپنسر کا کورس کیا ہے، اس کا اپنا ذاتی لائنس ہے، جلد ہی شادی کے بعد اپنا کاروبار شروع کر دے گا۔

3۔ ہم *** کو مستقل پردہ کروائیں گے۔ لیکن بعد میں پتہ چلا کہ ان کے خاندان میں پردہ کا رواج نہیں ہے، تمام گھر کی خواتین بغیر پردہ کے مویشیوں کے لیے گھاس لاتی ہیں، کپاس چنتی ہیں، غیر محرموں سے پردہ نہیں کرتیں۔ گھر میں بھی شرعی پردہ نہ ہے۔ لڑکے کے خاندان کے معزز افراد نے بتایا کہ اس بچی *** کا بھی یہی حال ہو گا۔ حالانکہ  بچی پٹھان خاندان سے تعلق رکھتی ہے، بچی کے والد معزز عالم دین ہیں، گھر میں پردہ و شرعی امور کی سخت پابندی ہے، بچی بھی حافظہ عالمہ ہے (اگر خاوند کے اس غیر شرعی ماحوم میں رہی تو ساری دینی کاوشوں پر پانی پھر جائے گا)۔ اور لڑکا *** ایک مجہول اجڈ  لوکل قوم سے تعلق رکھتا ہے، اسی قوم کے دیگر اعزاء اقرباء *** کے گھرانہ کو کنجوس کہتے ہیں۔

4۔ نان و نقفہ اخراجات کے بارے میں بہت دعوے کیے گئے کہ ہم بچی کا بہت خیال رکھیں گےج۔ مگر شادی ہونے کے بعد پہلی رات خاوند *** نے جو حق مہر کے چار ہزار روپے *** کو دیے تھے اور *** کے ذاتی پیسے مبلغ چھ ہزار یا اس ے زیادہ جو بھی رقم تھی وہ سب *** خاوند نے اگلے دن بچی سے لے کر اپنے ولیمے پر خرچ کر دیے۔ بچی *** جب ذاتی خرچہ مانگتی تو *** اس کو اپنے والد کے پاس بھیج دیتا۔ لڑکے کا  والد کبھی کچھ دے دیتا، اکثر کہتا کہ خاوند سے مانگو۔ بچی نے پہننے کے لیے کپڑے مانگے وہ بھی لے کر نہیں دیے، سخت گرمی کے موسم میں جون جولائی میں بھی ریشمی کپڑے پہن کر گذارہ کرنے کا حکم دیا جاتا۔ بچی کی والدہ اپنے گھر سے بچی کے لیے گرمی کے کپڑے سلوا کر بھیجتی رہی۔ بچی *** کی ساس نے نمک مرچ دیگر راشن وغیر الماری میں تالا لگا کر رکھی ہوتی تھیں، بچی کو اپنی مرضی سے یہ چیزیں اٹھانے کی اجازت نہیں تھی۔ کبھی جب گھی ختم ہو جاتا تو سرسوں کے تیل میں سالن پکایا

جاتا تھا۔ بچی نے چونکہ اپنے والدین کے گھر ایسے حالات نہیں دیکھے تھے، اس لیے وہ بھوکی رہتی یا خشک روٹی کھا لیتی۔

5۔ *** اور اس کے والدین نے *** کے بارے میں یہ ظاہر کیا ہوا تھا، کہ یہ بہت نیک تھے حافظ قرآن ہے۔ ذاتی زمین جائیداد ہے، بہت اچھے اخلاق ہیں، لیکن بعد میں بچی *** نے خود آکر بتایا کہ میں کھانا کھا رہی تھی تو میرا خاوند *** میرے قریب آکر زور سے ہوا خارج کرتا تھا جس سے بچی کو نفرت ہو جاتی اور وہ کھانا چھوڑ دیتی تھی۔

نیز پہلی رات ہی خاوند *** نے *** بی بی پر شک کیا کہ تمہارا کسی اور آدمی سے بھی عاشقی ہے۔ واقفان حال نے بتایا کہ *** کا والد بھی شکی المزاج ہے، بڑھاپا کے باوجود بھی اپنی بوڑھی بیوی پر ہر وقت نظر رکھتا ہے کہ گھر سے بارہ کیوں جارہی ہے؟ کس سے باتیں کر رہی ہے؟ تو والد کی طرح بیٹا *** بھی شکی مزاج ہے۔ نیز *** اپنے والدین اور بڑے بھائیوں اور اپنے چاچائیوں کی بے عزتی بھی کرتا رہتا ہے، گالیاں نکالتا ہے، بُرا بھلا کہتا ہے، جس کا بندہ خود بھی چشم دید گواہ ہے۔ *** اور اس کے والد نے اپنے مرحوم چچا کی زمین پر بھی قبضہ کیا ہوا ہے۔ وہ نیک تبلیغی ساتھی تھے، جب انہوں نے غاصبانہ قبضہ کیا تو وہ جھولیاں اٹھا کر بد دعا دیتے ہوئے نکل گئے، اسی صدمہ سے بوقت نماز تہجد ذکر کرتے ہوئے وفات پا گئے۔ بچی *** کو اس  چچا کے گھر آنے جانے پر بھی دونوں باپ بیٹے نے پابندی لگائی ہوئی تھی۔ *** نفسیاتی مریض بھی ثابت ہو گیا ہے۔ شادی سے پہلے ان حالات کا علم نہ تھا، ورنہ یہاں تک نوبت ہی نہ آتی۔ *** کے والدین نے ظاہری دینداری، شکل و صورت دیکھ کر رشتہ اس غیر خاندان میں دے دیا۔ حالانکہ *** کے خاندان والے بزرگ اس رشتہ سے ناخوش تھے۔ بعض اوقات جب *** شدید غصہ میں آتا ہے، تو بیوی سے موبائل چھین کر توڑ دیتا تھا کہ تو کس یار سے باتیں کر رہی تھی۔ کبھی   کہتا ہے کہ خود کشی کر لوں گا۔ شادی سے پہلے *** کام کاج کرتا تھا، جیسے ہی شادی ہوئی کام کاج چھوڑ کر سارا دن چار پائی پر لیٹا رہتا تھا۔ اس کا بڑا بھائی کراچی سے ماہانہ چھ ہزار روپے بھیجتا، ا سے یہ بھابھی اور اس کے بچے کو سنبھالتا، اور اپنا خرچہ بھی اس میں سے نکالتا۔ پچھلے دنوں اس کے سخت رویہ سے تنگ آکر بھابھی بھی اپنا سامان لے کر اپنے میکے چلی گئی ہے، اور طلاق کا مطالبہ کر رہی ہے۔

بہر حال سب گھر والے *** کے سخت رویہ سے تنگ ہیں، اس کا مزاج متکبرانہ، خوشامدانہ، عجب پسندی والا ہے۔ لوگ تھوڑی سی جھوٹی سچی تعریف کر دیں، تو ان کے ساتھ  تھانوں، کچہریوں میں بھی جاتا رہتا ہے، اور وہاں گواہیاں دینا، جھوٹے سچے بیان دینا، حکومتی لوگوں سے تعلقات پیدا کرنا یہی اس کی مصروفیات ہیں۔

جو ذاتی میڈیکل لائسنس کا سبز باغ سسرال والوں کو *** نے دکھایا تھا، وہ بعد میں پتہ چلا کہ کسی اور میڈیکل سٹور والے کو کرایہ پر دے رکھا ہے۔ اسی کرایہ کی آمدن سے گھر کا خرچہ چلاتے ہیں۔ نیز *** بی بی کی شادی پر *** نے اپنے خرچہ سے فرنیچر بنوایا، کچھ سامان جہیز خرید کر دیا۔ یہ سب فرنیچر مکمل اے ٹو زیڈ سامان جہیز کی جملہ اشیاء، ڈیڑھ تولہ سونا بصورت زیوارات سب کا سب *** کے اپنے ذاتی گھر میں محفوظ موجود ہے، اور *** کے قبضہ میں ہے۔ اور *** بی بی کے جو والدین نے مبلغ 10 ہزار  مالیت کے کپڑے، جوتیاں وغیرہ بچی کی ہدیتاً اپنی طرف سے دی تھیں، ان چیزوں پر بھی *** نے قبضہ کیا ہوا ہے۔ اور بچی پر اب  *** الزام بھی لگا رہا ہے کہ بچی *** بی بی میرے گھر سے زیوارات نقدی وغیرہ لے کر بھاگ گئی ہے۔ حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ بچی کو جب اس کا چچا اپنے والدین کے گھر ملوانے لایا تھا، اس وقت سوائے ایک جوڑا کپڑا برقعہ کے کوئی سامان بھی ساتھ نہیں لائی تھی۔ نیز *** نے *** کے ناراض ہو جانے کے بعد *** کے گھر آ کر بہت بد تمیزی کی، موٹر سائیکل کی ٹکر سے گھر کا دروازہ توڑا، پھر ساس کا گریبان پکڑ کر کہا  کہ کہاں ہے؟ *** ۔۔۔ نکالو ۔۔۔ آج میں ساتھ لے کر جاؤں گا ۔۔۔ ورنہ تمہیں قتل کر دوں گا ۔۔۔ آج یہاں لاشیں گراؤں گا وغیرہ وغیرہ، تو پڑوسیوں کے خواتین اور مردوں نے شور  سن کر آ کر اس کو گھر سے باہر نکالا، اور پھر جاتے ہوئے بچی کو دھمکی دی کہ اشٹام لا رہا ہوں، مجھے دوسری شادی کے لیے دستخط  کر دو، میں تو گندے لوگوں کے پلے پڑ گیا ہوں ۔ *** کا سسر جمعہ کے دن ممبر رسول پر مسجد میں بیٹھے تقریر کر رہا تھا، *** نے آکر مسجد میں تمام مقتدیوں کے سامنے اس عالم دین کو شرمندہ کیا، وہ پھر بھی خاموش ہو گئے، اس کو مقتدیوں نے پکڑ کر مسجد سے نکالا۔

خلاصہ احوال یہ ہے کہ یہ کچھ تفصیل ذکر کی گئی ہے۔ اور باقی تفصیل تنسیخ نکاح کے دعوی والے کاغذ پر تحریر ہے۔ ان تمام حالات و واقعات سے تنگ آکر مدعیہ *** بی بی کی اجازت سے عدالتی تنسیخ نکاح کی کاروائی عمل میں لائی گئی۔ جس میں *** بی بی کی طرف سے وکیل منہاس خان ایڈوکیٹ خانیوال بشمول گواہان زاہد اقبال خان، عبد الغفور، مولانا عبد الصبور، مفتی کلیم اللہ، عبد الودود کا تقرر ہوا کہ واقعی *** نے یہ زیادتیاں کی ہیں۔ یہ تمام گواہ آج دوسری جگہ بھی گواہی دینے کے لیے تیار ہیں۔ اگر تحریری گواہی کی ضرورت ہو تو تحریری بھی دے دیں گے۔ اس دعویٰ کے بعد عدالت نے *** کو عدالت میں طلب کیا۔ چار مرتبہ دونوں فریق کو عدالت نے بلایا۔ چاروں پیشیوں میں *** بذات خود پیش ہوتا رہا، اور بچی بمعہ اپنے والد اور وکیل منہاس خان پیش ہوتے رہے۔ چار بار پیشی ہوئی، آخری پیشی میں عدالت نے میاں بیوی کو اکٹھے بٹھایا، دونوں کمرہ عدالت میں اکیلے آدھا گھنٹہ بیٹھے رہے، پھر جج نے دونوں کو بلایا تو بچی سے پوچھا کہ کیا ارادہ ہے، صلح کرنی ہے؟ تو بچی نے واضح طور پر کہا (جو کہ والد اور وکیل جو کمرہ عدالت سے باہر تھے) انہوں نے خود سنا کہ میرا *** سے گذارہ نہیں ہو سکتام مجھے طلاق چاہیے۔ تو  عدالت نے ***  اور *** دونوں سے دستخط لکھوائے۔ *** سے جج نے کہا کہ چار ہزار حق مہر اس کا واپس کر دو۔  ساتھ میں جج صاحبہ نے یہ بھی *** سے اپنی زبان خود کہا کہ تمہارے پاس 90 دن تک موقعہ ہے، اگر بیوی کو راضی کر لو، تو ٹھیک۔ ورنہ پھر طلاق سمجھو۔ تو  *** یہ سن کر خاموش رہا۔۔۔۔ وکیل کے کاغذات پر دستخط کر کے کمرہ عدالت سے باہر نکل گیا۔ اور ڈگری جاری کر دی۔ پھر یونین کونسل میں تنسیخ نکاح اور ڈگری کی فائل عدالت نے بھیج دی۔ تو یونین کونسل نے چار مرتبہ دونوں فریق کو بلایا۔ اس میں بھی *** بذات خود حاضر ہوتا رہا۔ سیکرٹری یونین کونسل نے دونوں کو  *** اور *** کو علیحدہ کمرے میں اپنے سامنے بٹھا کر صلح کی ترغیب دی۔ مگر *** نے انکار کیا کہ مجھے طلاق چاہیے ۔ تو آخری پیشی میں یونین کونسل سیکرٹری نے *** سے کہا کہ بہتر ہے کہ اس سے چھوڑ دیں، ورنہ  ہم تو طلاق نامہ جاری کر دیں گے۔ اس نے کہا کہ میں تو نہیں دیتا، تم بے شک دے دو۔ تو طلاق نامہ جاری ہو گیا۔ اس فتویٰ کے ساتھ ایک عالم دین کے فتوے کا عکس، اور یونین کونسل سے جاری شدہ طلاق نامہ، نکاح نامہ کا عکس، تنسیخ نکاح کے دعوے کا عکس منسلک ہے۔

اب جواب طلب امور یہ ہیں:

1۔ کیا عدالتی تنسیخ نکاح *** بی بی کے حق میں نافذ ہو چکی ہے؟ کیا بچی *** بی بی شرعی لحاظ سے دوسری جگہ نکاح کر سکتی ہے؟

2۔ اور پہلے خاوند سے بچہ کا شرعی حکم کیا ہو گا؟ *** بی بی کا اپنے اس خاوند  *** سے نو ماہ کا بیٹا بھی ہے، جو کہ *** کے پاس ہے۔ وہ خاوند کو نہیں دینا چاہتی، کیا بچہ تا حیات والدہ کے پاس رہے گا؟ یا والد لے سکتا ہے یا کون حقدار ہے؟

3۔ شرعی نقطہ نظر سے کیا عدالتی طلاق مؤثر ہو جانے کے بعد از نکاح تا وضع حمل کے اخراجات، پھر بچے کی پرورش و تعلیم وغیرہ علاج معالجہ کے اخراجات مدعا علیہ *** کے ذمہ ہیں، وہ ادا کرے گا یا نہیں؟

4۔ بچی *** بی بی کا جو ذاتی سامان ہے، جو والدین نے لے کر دیا ہے (خاوند اس کا اقرار بھی کرتا ہے) لیکن *** اس پر قابض ہے، کئی مرتبہ واپسی کا مطالبہ کیا گیا۔ مگر وہ واپسی کا انکاری ہے۔ اگر وہ واپس نہ کرے گا، تو اخروی لحاظ سے کیا نقصان ہو گا؟

نوٹ: بچی *** بی بی کے والدین نے *** کو دو مرتبہ موقع دیا۔ معاف بھی کیا، پنچائت میں علماء کرام کو بھیجا گیا مگر *** نے علماء کرام کی بھی بے اکرامی کی، جس کی وجہ سے عدالتی راستہ اختیار کیا گیا۔ کیونکہ نہ وہ طلاق دینے پر آمادہ ہے، نہ ہی انسان بن کر بیوی کو بسانے پر آمادہ ہے۔ قرآن و حدیث کی روشنی میں اس فتویٰ کا تفصیلی جواب عنایت فرمائیں۔

بیوی کا بیان

حضرت مکرم حضرت اقدس مفتی صاحب دامت برکاتہم السلام علیکم!

جناب میں بندی سائلہ مسماة ***  بہت پریشان ہوں، لوگوں کے طعنے، عورتوں کی طرف سے طنز آمیز باتوں سے تنگ آ چکی ہوں، کبھی کبھی ان باتوں سے دل و دماغ اتنے پریشان ہو جاتے کہ گھر سے بھاگ جاؤں، مگر صبر کر لیتی ہوں۔ آپ میرا مسئلہ حل فرما دیں اللہ تعالیٰ آپ کو اجر عظیم عطا فرمائیں گے۔

میرا نکاح 6 فروری 2012ء کو *** کے ساتھ ہوا، نکاح فارم اس فتوے کے ساتھ منسلک ہے۔ اس وقت میری عمر سولہ سال سات ماہ تھی۔ ایک سال خاوند کے ساتھ رہی، مشکلات میں گذارا کیا۔ لیکن پھر میرا خاوند مجھ سے ناروا سلوک کرنے لگا اور میرے والدین سے بھی۔ جس کی تفصیل فتویٰ میں درج ہے۔ اب میرا خاوند نہ مجھے اسلامی طریقے سے بسانا چاہتا ہے، نہ ہی مجھے طلاق دیتا ہے۔ نان و نفقہ میں مجھے تنگی دی اور مجھے پہلی رات سے شک سے دیکھا ہے۔ نفسیاتی مریض ہے، شکی مزاج ہے۔ میں نے مجبور ہو کر عدالت کا رُخ کیا۔ اب عدالت نے میرے حق میں ڈگری جاری کر دی ہے، اور یونین کونسل سے طلاق نامہ جاری ہو گیا ہے، میں نے عدالت کے اندر جج صاحبہ کے سامنے کہہ دیا تھا خاوند کی طرف اشارہ کر کے۔ اس وقت میرا خاوند بھی میرے ساتھ عدالت میں کھڑا سن رہا تھا کہ جج صاحبہ انہوں نے مجھے چار ہزار حق مہر دیا تھا، لیکن شب باشی کی اور اگلی صبح کو مجھ سے لے کر ولیمہ پر خرچ کر دی، اور میرے عزیز و اقارب اور دیگر خواتین کی طرف سے دی گئی میری منہ دکھائی کی رقم 6 ہزار روپے تھی، جو میری اجازت کے بغیر اور حق مہر کی رقم بھی صندوق سے اٹھا کر ولیمہ پر خرچ کر دی۔ اور جج نے خاوند سے کہا کہ میں خلع کی ڈگری لکھ رہی ہوں 90 دن کے اندر اگر بیوی کو راضی کر لو تو بہتر ہے، ورنہ طلاق ہو جائے گی، تو خاموش کھڑا رہا۔ اور مجھے جج صاحبہ نے کہا میں خلع کا فیصلہ لکھ رہی ہوں، چار ہزار حق مہر اس کو واپس کر دو، تو میں نے فوراً جج صاحبہ سے کہا کہ جناب والا میری حق مہر کی رقم انہوں نے اسی دن ولیمہ میں خرچ کر لی تھی، تو جج خاموش ہو گئی، اور فیصلہ تحریر کر کے انگوٹھے (میرا اور میرے خاوند کا انگوٹھا) دونوں  لگوا کر داخل عدالت

کر دیے۔ پھر یونین کونسل سے 90 دن کے بعد طلاق نامہ بھی جاری ہو گیا۔

حضرت مفتی صاحب عدالت میں بھی اور یونین کونسل میں بھی ہم خاوند اور بیوی کو ساتھ ساتھ بٹھایا گیا اور صلح کی کوشش کی گئی۔ لیکن ہماری صلح نہ ہو سکی۔ اب میں اپنے خاوند محمد *** سے جان چھڑانا چاہتی ہوں۔ میرے والدین بھی بہت پریشان ہیں، علاقہ کے علماءکرام اور معززین بھی میرے خاوند کے خاندانی پس منظر اور نا مناسب رویہ کو دیکھتے ہوئے یہی مشورہ دے رہے ہیں کہ ان سے جان چھڑوا لو، روز روز کے رونے سے ایک دن کا رونا بہتر ہے۔ اس لیے اس درخواست کے ذریعے آپ سے اپیل کرتی ہوں کہ میرے حق میں عدالتی تنسیخ نکاح کے نافذ ہونے اور دوسری جگہ نکاح جائز ہونے کا فتویٰ صادر فرما دیں یا اس مسئلے کا شرعی حل تحریر فرما دیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کو اپنی رحمت کے شیان شان اجر عظیم عطا فرمائے۔ امید واثق ہے کہ آنجناب اپنی اس مجبور پریشان دکھی بیٹی کے سر پر شفقت کا ہاتھ رکھیں گے۔ بندی آپ کے لیے تاحیات دعا گو رہے گی۔ و السلام العارضہ آپ کی بیٹی ***۔

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved