• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

روزے کے کفارہ کی رقم یا طعام مدرسے میں دینا

استفتاء

1۔ روزہ توڑنے کے کفارے کی ادائیگی بصورت اطعام یا رقم اگر مدرسے میں کرنی ہو تو اس کی کیا صورت ہو گی؟ جبکہ مدرسہ کے طلباء بالغ بھی ہوں۔

2۔ اور مدرسہ والے اس رقم کو کس طرح خرچ کرنے کے پابند ہیں؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

روزہ توڑنے کے کفارے کی ادائیگی مدرسہ میں اگر بصورت  اطعام کرنی ہو تو اس کی دو صورتیں ہیں:

i۔  ایک صورت یہ ہے کہ آپ ساٹھ مسکینوں کو بطور اباحت کھانا کھلائیں۔ مثلاً کھانا پکا کر مدرسہ میں لے گئے، ساٹھ مسکین طلباء کو بلا کر دستر خوان بچھا کر انہیں کھانا کھلا دیا۔ اور جو باقی بچا اسے واپس لے کر آ گئے یا باقی بچا ہی نہیں۔ اس صورت میں ساٹھ مسکینوں کو دو وقت پیٹ بھر کر کھانا کھلانا ضروری ہے۔ اور دوسرے وقت بھی وہی مسکین ہوں جنہوں نے پہلے وقت میں کھانا کھایا تھا۔

ii۔ دوسری صورت یہ ہے کہ آپ ساٹھ مسکینوں کو بطور تملیک کھانا کھلائیں۔ مثلاً فی مسکین پونے دو کلو گندم کی قیمت کے لحاظ سے ساٹھ مسکینوں کا کھانا تیار کروا کر مدرسہ میں دے آئیں۔ اس صورت میں اتنا کھانا دے آنا ہی کافی ہے ساٹھ مسکینوں کا دو وقت کھانا، یا پیٹ بھر کر کھانا ضروری نہیں۔ اور اگر کفارے کی ادائیگی بصورت رقم کرنی ہو تو فی مسکین پونے دو کلو گندم کی قیمت کا لحاظ کر کے ساٹھ مسکینوں کی قیمت مدرسہ میں دے دیں۔

2۔ مدرسہ کی حیثیت بیت المال کی ذیلی شاخ کی ہے۔ لہذا کفارے کی جو رقم مدرسہ میں دی وہ دیتے ہی دینے والے کی ملک سے نکل کر فقراء کی ملک ہو گئی اور کفارے کی ادائیگی ہو گئی۔ اب مہتمم مدرسہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ یہ رقم بوقت ضرورت اور بقدر ضرورت طلباء پر خرچ کر دے۔ اس میں یہ ضروری نہیں کہ وہ ایک دن میں فی طالب علم پونے دو کلو  گندم کی قیمت یا اس کے بقدر کھانا بنوا کر طالب کو دے۔

أن رجلاً وقع بامرأته في رمضان فاستفتی رسول الله صلی الله عليه و سلم فقال هل تجد رقبة قال لا، قال هل تستطيع صيام شهرين، قال لا، قال أطعم ستين مسكيناً. (البخاري)

(فإن عجز عن الصوم) لصوم لا ير جی برؤه أو كبر  (أطعم) أي ملك (ستين مسكيناً) و لو حكماً و لا غير المراهق بدائع (كالفطرة) قدراً و مصرفاً (أو قيمة ذلك) من غير المنصوص، إذ العطف للمغائرة (و إن أراد) الإباحة فلو غداهم و عشاهم أو غداهم و أعطاهم قيمة العشاء أو عكسه أو أطعم غداءين و عشاءين أو عشاءً و سحوراً و أشبعهم (جاز). (رد المحتار: 5/ 143- 144)

و الضابط أن ما شرع بلفظ إطعام و طعام جاز فيه الإباحة، و ما شرع بلفظ إيتاء و أداء شرط فيه التمليك. (رد المحتار: 5/ 146)

و إن عجز عن الصيام يطعم ستين مسكيناً و يجزئ فيه طعام التمليك و طعام الإباحة و تفسير

طعام التمليك ظاهر، و تفسير طعام الإباحة أن يغديهم و يعشيهم، فإن أراد أن يطعمهم طعام التمليك يطعم لكل مسكين نصف صاع من بر، أو صاعاً من تمر، أو صاعاً من شعير كما في صدقة الفطر. (المحيط البرهاني: 5/ 196)

و لو أراد أن يعطيهم قيمة الطعام أعطی كل مسكين قيمة نصف صاع حنطة، أو قيمة صاع من تمر أو شعير و إن أراد أن يعطيهم طعام الإباحة غداهم و عشاهم. (المحيط البرهاني: 5/ 197)

(فإن لم يستطع الصوم)  لمرض أو كبر (أطعم ستين مسكيناً) أو فقيراً و لا يشترط اجتماعهم و الشرط أن (يغديهم و يعشيهم غداء و شاء شبعين) و هذا هو الأعدل لدفع حاجة اليوم بجملته (أو) يغديهم (غداءين) من يومين (أو) يعشيهم (عشاءين) من ليلتين (أو عشاء و سحوراً) بشرط أن يكون الذين أطعمهم ثانياً هم الذين أطعمهم، أو لا حتی لو غدّی ستين ثم أطعمهم ستين غيرهم لم يجز حتی يعيد الإطعام لأحد الفريقين. (حاشية الطحطاوي علی المراقي: 670) …….. فقط و الله تعالی أعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved