• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

انڈے سے پاؤڈر بنانے میں خون کے ذرات کے شامل ہونے کا حکم

استفتاء

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ہمارا تعلق ایک پروسیسنگ یونٹ سے ہے جس میں ہم انڈے سے پاؤڈر بناتے ہیں جس کے لیے ایک دن میں تقریباً 5 لاکھ انڈہ استعمال ہوتا ہے۔ پاؤڈر بنانے کا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ سب سے پہلے انڈے کو مشین سے چیک کر کے چھانٹی کر لیا جاتا ہے اس کے بعد انڈہ کنویر پہ رکھا جاتا ہے جہاں وہ واش ہوتا ہے اور ٹوٹ کر انڈے کا لیکویڈ الگ ہو جاتا ہے اور اس کا چھلکا الگ ہو جاتا جبکہ احتیاطاً کنویر پہ لڑکے بھی ہوتے ہیں جو کچرا وغیرہ اگر کچھ آجائے تو وہ اسے بھی نکال دیتے ہیں۔ اس کے بعد انڈے کا لیکویڈ بہت باریک چھلنیوں سے گذر کر ٹینکوں میں جاتا ہے، اس کے بعد چراثیم کو ختم کرنے کے لیے 70 ڈگری درجہ حرارت پر پکایا جاتا ہے اس کے بعد پھر لیکویڈ کا پاؤڈر بنانے کے لیے لیکویڈ کو 180 درجہ حرارت پر پکا کر پاؤڈر بنایا جاتا ہے۔

اب پوچھنا یہ ہے کہ اس سب کے باوجود اگر پھر بھی 5 لاکھ انڈے میں سے ایک سے پانچ فیصد انڈے کی زردی میں یا سفیدی میں معمولی سا بلڈ آجاتا ہے جبکہ حتی الامکان کوشش ہوتی ہے کہ بلڈ کو نکالا جا سکتے اور بلڈ بالکل بھی لیکویڈ میں نہ جائے لیکن اس کے باوجود بلڈ کے ذرات لیکویڈ میں چلے جائیں تو شرعی لحاظ سے پاؤڈر کی حلت و حرمت کا کیا حکم ہے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

انڈے سے پاؤڈر بناتے وقت شرعی اعتبار سے دو چیزیں قابل احتیاط ہیں:

1۔ خون والا انڈہ شامل نہ ہو۔

2۔ انڈے کا چھلکا اچھی طرح دھوکر صاف اور پاک کیا جائے۔

تفصیل یہ ہے کہ اگر انڈہ خراب ہو جائے اور اس کے اندر اتنا خون بن جائے کہ وہ بہنے والا ہو تو بہنے والا خون نجاست ہے جو کہ دیگر پاک انڈوں کو بھی نجس کر ے گا۔ لیکن اگر انڈے کے اندر خون کا محض ایک دبہ بنا ہے یعنی خون بہنے والا نہیں ہے تو ایک قول کے مطابق یہ خون بھی نجس ہے اور ایک قول کے مطابق نجس نہیں ہے۔

پھر جو فقہاء اسے پاک سمجھتے ہیں کھانے کے لیے اس کے حلال میں اختلاف کرتے ہیں بعض کے نزدیک پاک ہونے کے باوجود ایسے انڈے کا کھانے پینے کی چیزوں میں شامل کرنا جائز نہیں ہے۔ جبکہ بعض کے نزدیک گنجائش ہے۔ لہذا اختلاف سے بچنے کے لیے خون کے ذرات لیکوڈ میں رہ جانے سے مکمل احتیاط کریں۔

شرح وقایہ میں ہے:

فالدم إذا لم يسل عن رأس الجرح طاهر، وكذا القيء القليل، وعن محمد -رضي الله عنه- في غير رواية الأصول: إنه نجس؛ لأنه لا أثر للسيلان في النجاسة، فإذا كان السائل نجسا، فغير السائل يكون كذلك. ولنا: قوله تعالى: قل لا أجد في ما أوحي إلي محرماً، إلى قوله: أو دماً مسفوحاً، فغير المسفوح لا يكون محرماً، فلا يكون نجساً، والدم الذي لم يسل عن رأس الجرح دم غير مسفوح، فلا يكون نجساً …. قلت: لما حكم بحرمة المسفوح بقي غير المسفوح على أصله، وهو الحل، ويلزم منه الطهارة.

شرح وقایہ کی شرح سعایہ میں ہے:

و الحاصل أن الدم المطلق إن قيد بالمسفوح بقي غير المسفوح على حله و طهارته، و إن أطلق فهو و إن دل على تحريمه لكن لا يلزم منه النجاسة فيبقى على الطهارة الأصلية ما لم يدل دليل آخر على كونه نجساً و هو مفقود … إلخ. (1/288)

2۔ انڈے کا چھلکا اچھی طرح دھو کر صاف اور پاک کیا جائے۔

  1۔ السخلة اذا خرجت من امها فتلک الرطوبات طاهرة لا یتنجس بها الثوب والماء وکذا البیضة و فی الحجة و یکره التوضی بالماء الذی وقع فیه لمکان الاختلاف و فی الخانیة و کذا الا نفحه اذا خرجت من الشاة بعد موتها و فی العتابیة هو المختار و عندهما یتنجس وهو الاحتیاط و فی شرح الطحاوی وان یبست البیضة او السخلة ثم وقعت فی الماء او فی المرقة تفسدهما (تتارخانیة1/301)

2.البیضة الرطبة او السخلة الرطبة اذا وقعت فی ثوب لا تفسده فی قیاس قول ابی حنیفة رحمه الله (قاضیخان1/30 علی هامش عالمگیری).

البیضة اذا وقعت من الدجاجة فی الماء او فی المرقة لا تفسده و کذا السخلة اذا وقعت من امها رطبة فی الماء لا تفسده کذا فی کتب الفتاوی. و هذا لان الرطوبة التی علیها لیست بنجسة لکونها فی محلها (شرح منیه ص: 150)

کیونکہ انڈے کے چھلکے پر مرغی کے اندر جو رطوبت لگتی ہیں وہ رطوبات اگر ٹوٹے ہوئے انڈوں پر لگنے سے انہیں ناپاک کریں گی یا نہیں اس بارے میں بھی فقہاء کا اختلاف ہے اور اختلاف سے بچنا اولیٰ ہوتا ہے۔

ضروری وضاحت: مذکورہ بالا تفصیل صرف شرعی مسئلے کی حد تک ہے۔ آیا آپ مکمل احتیاط کرتے ہیں یا نہیں ؟ اس کے لیے آپ کو اہل حق کے کسی معتمد ادارے مثلاً سنہا یا حلال فاؤنڈیشن جامعۃ الرشید سے آڈٹ کروا کر سرٹیفیکیٹ حاصل کرنا چاہیے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved