• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

گیم بنانے والی کمپنی میں کام کرنے کا حکم

استفتاء

میں***عرض کر رہاہوں۔ میں ایک سافٹ ویئر انجینئر ہوں اور ***میں ایک موبائل گیمنگ کمپنی میں کام کرتا ہوں۔ میں بیک انڈ (back-end) انجینئر ہوں; یعنی میرا کام گیم کھیلنے والے کو براہ راست نظر نہیں آتا۔ گیم میرے سافٹ ویئر (software) سے باتیں کر کے مختلف چیزیں کرتی ہے۔ جیسا کہ ادائیگی (payment) کرنا، پوائنٹس ریکارڈ کرنا، پروفائل تصویر ڈالنا۔ یعنی میرا کام گیمزبنانا نہیں ہے، بلکہ اس کو سہولیات فراہم کرنا ہے جس کی مدد اس کو چاہیئے ہوتی ہے

گیمز کی مختلف قسمیں  ہیں،میری کمپنی ابھی (میرے علم میں) کوئی قابلِ اعتراض  گیم نہیں بناتی۔ جیسے کہ فحاشی یا جوئے والی۔ مگر اسمیں کوئی پتہ نہیں کہ کل اس قسم کا کوئی کام شروع ہو جائے۔ میں خود بھی وہ گیمز نہیں کھیلتا؛ یعنی مجھے مکمل علم نہیں کہ گیمز میں کیا کچھ ہے۔ اسکے علاوہ گیمز خود شاید پسندیدہ چیز نہیں ہیں؟ میں کوشش کرتا رہا ہوں کہ اس کام سے دور ہو جاوں مگریہ آسان نہیں، زیادہ تر کام بہتری کی طرف نہیں جاتا۔

  1. بینک سودی کام کرتے ہیں
  2. ایک نئی قسم کی کرنسی، کرپٹو کرنسی کی کمپنیاں بھی ہیں (اس حوالےسے آگے مزید تفصیل ذکر ہے )
  3. شاپنگ کمپنیوں میں بھی کہیں نہ کہیں سود نکل آتا ہے،قسطوں پہ بیچنے کی مثال ہے
  4. ٹریول ایجنسیاں بھی سود سے خالی نہیں، ادھار (کریڈٹ) پہ بکنگ کی مثال ہے
  5. ٹک ٹاک (tiktok) طرز کی کمپنیاں ہیں جہاں پہ عوام اچھی بری ویڈیوز ڈالتی ہے
  6. نیٹ فلکس (netflix) طرز کی ہیں جہاں فلمیں ڈالی جاتی ہیں
  7. ٹی وی/میڈیا بھی مشکوک ہیں جیسےاوپر دو مثالیں ہیں
  8. فیشن؛ملبوسات ، اس میں قابلِ اعتراض لباس وغیرہ
  9. بڑی دکان،سٹور یا مال وغیرہ: جو حلال اور حرام دونوں قسم کی چیزیں بیچتے ہیں؛ جیسے حرام گوشت، شراب وغیرہ
  10. فیس بک (facebook)؛ اس نے ایک سے زیادہ بار رسول اللہ ﷺ کی شان میں گستاخی میں مدد کی
  11. گوگل (google)، ایمازون (amazon)؛ بڑی کمپنیاں جن کے بہت سےکاروبار ہیں۔ کچھ کاروبار مشکوک ہیں؛ جیسے دونو کا نیٹ فلکس جیسا کاروبار بھی ہے۔کیا ان کےہر شعبہ میں کام ناجائز ہو گا؟

اوپر دی گئی ساری مثالیں وہ ہیں جن کو میں خود انکاریا نظرانداز کر چکا ہوں۔کیا ان میں سے کچھ میں حد سے زیادہ سختی ہوئی؟

کرپٹو کرنسی کا حلال ہونا بھی مشکوک ہے (جبکہ کاغذی کرنسی پہ بھی اختلاف پایا جاتا ہے)۔ یہ ایسی کرنسی ہے جس کا کوئی فزیکل وجود ہی نہیں؛ اور اس وجہ سے شاید حرام قرار پائے؟ کچھ کمپنیاں کرپٹوکرنسی پہ کام تو نہیں کرتی ہیں مگرٹیکنالوجی وہی استعمال کرتی ہیں جو کرپٹو کرنسی میں ہے (blockchain)۔ اس ٹیکنالوجی کو سیکھنے کے لیے ایسی نوکری کرنا چاہتا ہوں مگر یہ ڈر ہے کہ کرپٹو کرنسی میں ہاتھ نہ ڈال دوں ۔مگر اس طرح سیکھنے کے دروازے بند ہو جاتے ہیں۔

  1. گیم بنانے میں استعمال ہونے والے گیم انجن کی ایک کمپنی ہے۔ وہ خود گیم نہیں بناتی مگران کی پروڈکٹ سےکسی قسم کی گیم بن سکتی ہے، فلمیں بھی بنتی ہیں۔ اس کے علاوہ وہ اپنی پروڈکٹ کو استعمال کرنے پرمعاوضہ کے ذریعے مدد بھی کرتی ہے،اس طرح وہ اپنی ٹیم گیم یا فلم کمپنی کے ساتھ لگا دیتے ہیں۔

نوکری ڈھونڈنا آسان نہیں ہے، کوئی ملتی ہے تو اس میں بتائے گئے شکوک رہتے ہیں۔ پھر اگر ایسا نہ ہو تو میرے انتخاب میں پاس بھی کر دیں… یہ مسئلہ رہتا ہے۔

1۔آپ کی رہنمائی چاہیے؛نوکری چھوڑی نہیں جا سکتی، کیااس کام سے دور ہونے کی کوشش جاری رکھنی چاہیئے؟

2۔ان میں سے کون سے بہتر کام ہیں جن کی طرف جایا جا سکتا ہے؟خصوصاکرپٹو کرنسی اور گیم انجن کے حوالے سے رہنمائی فرمائیں۔

تنقيح : گیم انجن گیم کو بنانے اور چلانے میں استعما ل ہونے والے بنیادی سافٹ وئیر کو کہتے ہیں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

1۔مذکورہ صورت میں آپ کا اس کمپنی میں کام کرنا  جائز  نہیں لیکن جب تک کوئی متبادل صورت نہیں ملتی تب تک  اس کمپنی میں کام کرسکتے ہیں اور متبادل کی تلاش جاری رکھیں۔

توجیہ: موبائل اور کمپیوٹر والی گیمیں بنانا اور کھیلنا بذاتِ خود ایک ناجائز کام ہےکیونکہ ان کا استعمال لغویات میں داخل ہے ،نیز  گیموں میں میوزک، تصاویر وغیرہ بھی ہوتی ہیں جوکہ فی نفسہ حرام ہیں اس لئے گیم سے متعلقہ کسی بھی شعبہ(خواہ اس شعبہ کا تعلق براہِ راست گیم سے ہویا گیم کو مدد فراہم کرنے سے ہواس) میں کام کرنا جائز نہیں ہےاور  سائل نے جو چیزیں ذکر کی ہیں وہ بھی گیم کا ہی ایک حصہ ہوتی ہیں  یا کم از کم گیم کو چلانے میں مدد فراہم کرتی ہیں لہذا مذکورہ کمپنی میں کام کرنا جائز نہیں ۔

2۔کرپٹو کرنسی اور گیم انجن کا کام تو ناجائز ہےاس کے علاوہ جن کا موں کا آپ نے ذکر کیا ہے ان میں سارے کام ناجائز نہیں بلکہ بہت سے کام فی نفسہ جائز ہیں  اور انہیں  جائز طریقہ سے کرنا ممکن بھی ہے   مثلاشاپنگ کمپنی، ٹریول ایجنسی،جائز  ملبوسات کا کام، سٹور یا مال وغیرہ، اس کے علاوہ ایمازون پر بھی بہت سے ایسے کام ہیں جوکہ جائز ہیں  نیز قسطوں پر کوئی چیز مہنگی بیچنا یا ادھار پر بکنگ   ناجائز اور سود نہیں بشرطیکہ ان میں مزید کوئی خرابی مثلا قسطوں کی صورت میں قسط لیٹ کرنے پر جرمانہ وغیرہ  نہ ہو۔

 

در مختار(9/595ط:رشیدیہ) میں ہے:

 وکل ما أدی إلی ما لا یجوز لا یجوز.

تکملہ فتح الملهم( 4/382) میں ہے:

"فالضابط في هذا عند مشائخناالمستفاد من اصولهم واقوالهم  أن اللهو المجرد الذي لا طائل تحته، وليس له غرض صحيح  مفيد في المعاش ولا المعاد حرام أو مكروه تحريماً، وهذا امر مجمع عليه في الامة متفق عليه بين الائمة … وما كان فيه غرض  ومصلحة دينية أو دنيوية فإن ورد النهي  عنه من الكتاب  أو السنة (كما في النرد شير)… كان حراماً أو مكروهاً تحريماً،والغيت تلك المصلحة والغرض لمعارضتها للنهي الماثورحكما بان ضرره اعظم من نفعه وهذا ايضا متفق عليه بين الائمة  غير انه لم يثبت النهي عند بعضهم فجوزه و رخص فيه وثبت عند غيره فحرمه و كرهه و ذلك كالشطرنج فان النهي الوارد فيه متكلم فيه من جهةالرواية والنقل فثبت عند الحنفية وعامة الفقهاء فكرهوه ولم يثبت عند ابن السيب وابن المغفل و في رواية عند الشافعي ايضا فاباحوه   … وأما مالم يرد فيه النهي عن الشارع وفيه فائدة ومصلحة للناس فهو بالنظر الفقهي على نوعين: الأول: ما شهدت التجربة بأن ضرره أعظم من نفعه، ومفاسده أغلب على منافعه، وأنه من اشتغل  به ألهاه عن ذكر الله  وحده  وعن الصلاة والمساجد، التحق ذلك بالمنهي عنه؛ لاشتراك العلة، فكان حراماً أو مكروهاً. والثاني: ماليس كذلك، فهو أيضاً إن اشتغل به بنية التلهى والتلاعب فهو مكروه، وإن اشتغل به لتحصيل تلك المنفعة وبنية استجلاب المصلحة فهو مباح، بل قد ير تقي إلى درجة الاستحباب أو أعظم منه  هذه خلاصة ما توصل اليه والدي الشيخ المفتي محمد شفيع في احكام القرآن… وعلى هذا الأصل فالألعاب التي يقصد بها رياضة الأبدان أو الأذهان جائزة في نفسها مالم يشتمل على معصية أخرى، وما لم يؤد الانهماك فيها إلى الإخلال بواجب الإنسان في دينه و دنياه والله سبحانه اعلم

مسائل بہشتی زیور (2/498) ميں ہے:

وہ کھیل جن میں دینی یا دنیوی کچھ فائدہ نہ ہو ایسے کھیل بھی ناجائز ہیں مثلاً لڈو، کیرم کھیلنا ویڈیو گیم کھیلنا اور کانچ کی گولیاں کھیلنا وغیرہ کہ ان میں فائدہ کچھ نہیں البتہ وقت کا ضیاع ہے اور کبوتر بازی، جانوروں کو لڑانا اور پتنگ بازی وغیرہ کہ ان میں وقت کے ضیاع کے علاوہ اور بہت سی کراہتیں ہیں ۔

فتاوی عثمانی(3/397) میں ہے:

سوال : محترم و مكرم مفتی صاحب

آپ کی توجہ ایک اہم مسئلے کی طرف مبذول کرنا چاہتا ہوں وہ ہے بینک کی ملازمت کا ۔ہمارا معاشرہ ایک سودی معاشرہ ہے ربوا ،قمار کی نت نئی شکلیں آئے دن سامنے آتی ہیں اور انہیں ترقیاتی اسکیموں کے نام سے پیش کیاجاتا ہے بینک کی ملازمت اشد حرام ہے، اس بنا پر بعض لوگ اس حرام سے چھٹکارے کی نیت سے  اہل علم کا رخ کرتے ہیں اور بڑی معصومیت سے اپنی خستہ حالی کی سر گذشت سناتے ہیں کہ’’ اگر میں یہ ملازمت چھوڑ دوں گا تو میری مسکین بیوی ،چھوٹے چھوٹے ننھے منھے پھول ،کلیوں جیسے بچوں ،معمر ضعیف ،معذور ،مریض والدین اور جواں سال بے سہارا بے چاری بہنوں کے گذر کا سامان ہی کیا ہو گا سوائے اس حرام تنخواہ کے‘‘؟ اہل علم حضرات رحم دل و غمخوار تو ہوتے ہی ہیں ان کی طرف سے غالباً متفقہ طور پر ایک ہی نوعیت کا جواب ملتا ہے اور وہ آپ حضرات کو  بخوبی معلوم ہے ،جس کا مختصر خلاصہ یہ ہے کہ بینک کی ملازمت حرام ہے اور اس کی تنخواہ حرام ہے لیکن دوسری ملازمت کی تلاش جاری رکھو اور جب تک کوئی متبادل صورت نہ بنے بینک کی یہ حرام ملازمت کرتے رہو اس کی حرام تنخواہ سے اپنے بیوی بچوں والدین اور بہنوں کے حقوق ادا کرتے رہو ایمانی تنزل اور سرتوڑ مہنگائی، بڑھتے ہوئے اخراجات او ر ہوٰی پرستی کے دورمیں ایک بینک مینجر کے لیے اس قدر ہمدردی کافی تھی ،جوازکا یہ پیمانہ اسے خدا اور رسول سے ڈٹ کرمقابلے پر آمادہ کرتا ہے بندےسےبھی بارہا اس طرح استفتاء کیا گیا دل کسی بھی صورت میں جواز کا فتوٰی دینے پر آمادہ نہ ہوا ۔آپ ہمارے بڑے ہیں ایک خالی ہاتھ فقیر کی طرح آپ اہل علم حضرات کا دروازہ کھٹکھٹا کر بھیک مانگتا ہوں ،فاسئلوا اهل الذكر ان كنتم لا تعلمون قرآن و حدیث و اقوال فقہاء کرام یا قواعد فقہیہ میں سے جن دلائل کا سہارا لے کر جواز کا فتوٰی دیا جاتا ہے مفصل ومدلل بیان فرمادیں تو بڑی مہربانی ہوگی جزاکم الله خیراً۔

جواب :

جو بات کہی جاتی ہے اس کا مطلب جواز کا فتوٰی دینا نہیں ہوتا فتوٰی حرمت ہی کا ہے آگے اسے مشورۃً یہ کہا جاتا ہے کہ اگر موجودہ ملازمت ترک کرنے سے ناقابل برداشت تنگی کا اندیشہ ہو تو اس ملازمت کو حرام سمجھتے ہوئے دوسری ملازمت اس طرح تلاش کرو ،جیسے ایک بے روزگار آدمی تلاش کرتا ہے خواہ تنخواہ کچھ کم ہی کیوں نہ ہو جب وہ مل جائے تو ترک کردے میں نے اپنے والد ماجد مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ سے سنا ہے کہ اس مشورے کا حاصل اهون البلیتین پر عمل کرنا ہے کیونکہ بعض اوقات ترکِ ملازمت کے بعد فقر وفاقے میں مبتلا ہوکر لوگوں کے دین وایمان سے برگشتہ ہونے کا اندیشہ ہوتاہے اور ایسا یاد پڑتا ہے کہ حضرت والد صاحب نے یہ بات حضرت حکیم الامت قدس سرہ سے نقل فرمائی تھی مگر احقر کو یہ بات جزم کے ساتھ یاد نہیں ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved