• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

نکاح نامہ میں والد کے خانے میں پرورش کرنے والے کا نام لکھنا

استفتاء

میرے ماموں***نے ایک بچی گود لی تھی جس کا نام ***ہے۔ ***کے حقیقی والد کا نام ***تھا، بچی کی والدہ فوت ہو چکی ہیں اور والد کا کوئی علم نہ ہے کہ وہ زندہ ہیں یا فوت ہو چکے ہیں، بچی ***نے اپنی تعلیمی اسناد میں ولدیت فاروق لکھوائی ہے۔

اب بچی بالغ ہو چکی ہے اس کا نکاح ہونا باقی ہے۔ رہنمائی مطلوب یہ ہے کہ نکاح نامہ میں بچی کے حقیقی والد (***) کا اندراج کرانا چاہیے یا پرورش کنندہ*** کا نام درج کرانا چاہیے، اگر بچی کے حقیقی والد کا نام درج کرانے میں خاصی دشواری کا سامنا ہو گا تمام تعلیمی اسناد کو درست کرانا خاصا مشکل و دشوار ہے۔ اگر پرورش کنندہ کا نام درج کرائیں تو دشواری نہ ہو گی۔ نیز یہ کہ کسی قسم کی جائیداد یا وراثت کا کوئی دخل نہ ہے۔ اس معاملے میں رہنمائی فرمائیں مشکور ہوں گا۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

گود لےہوئے بچہ/ بچی کی ولدیت کی نسبت حقیقی والد کے علاوہ کسی اور شخص کی طرف کرنا جائز نہیں، خواہ وہ شخص پرورش کنندہ ہو یا کوئی اور ہو۔ لہذا مذکورہ صورت میں نکاح نامہ میں ولدیت کے خانہ میں بچی کے حقیقی والد (***) کا اندراج کروایا جائے، پرورش کنندہ ’’***‘‘ کا نام درج کروانا جائز نہیں۔

قرآن پاک میں ارشاد ہے:

ادعوهم لآبائهم هو أقسط عند الله. (پکارو لے پالکوں کو ان کے باپ کی طرف نسبت کر کے یہی پورا انصاف ہے اللہ کے یہاں) (ترجمہ: شیخ الہندؒ)

تفسیر عثمانی میں ہے:

یعنی ٹھیک انصاف کی بات یہ ہے کہ ہر شخص کی نسبت اس کے حقیقی باپ کی طرف کی جائے، کسی نے لے پالک بنا لیا تو وہ واقعی باپ نہیں بن گیا یوں شفقت و محبت سے کوئی کسی کو مجازاً بیٹا یا باپ کہہ کر پکارے وہ دوسری بات ہے غرض یہ ہے کہ نسبی تعلقات اور ان کے احکام میں اشتباہ و التباس نہ ہونے پائے۔

صحیح مسلم شریف (2/283) میں ہے:

عن سالم بن عبد الله عن أبيه أنه كان يقول ما كنا ندعو زيد بن حارثة إلا زيد بن محمد حتى نزل في القرآن ((ادعوهم لآبائهم هو أقسط عند الله.))

’’ترجمہ: حضرت سالم اپنے والد حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ ہم زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کو زید بن محمد کے نام سے پکارتے تھے (کیونکہ رسول اللہ ﷺ کے منہ بولے بیٹے تھے) یہاں تک کہ قرآن کریم کا یہ حکم نازل ہوا: پکارو لے پالکوں کو ان کے باپ کی طرف نسبت کر کے یہی پورا انصاف ہے اللہ کے یہاں ‘‘

موطا امام مالک میں ہے:

عن بن شهاب أنه سئل عن رضاعة الكبير فقال أخبرني عروة بن الزبير:أن أبا حذيفة بن عتبة بن ربيعة وكان من أصحاب رسول الله صلى الله عليه و سلم وكان قد شهد بدراً وكان تبنى سالماً الذي يقال له سالم مولى أبي حذيفة كما تبنى رسول الله صلى الله عليه و سلم زيد بن حارثة وأنكح أبو حذيفة سالماً وهو يرى أنه ابنه أنكحه بنت أخيه فاطمة بنت الوليد بن عتبة بن ربيعة وهي يومئذ من المهاجرات الأول وهي من أفضل أيامى قريش فلما أنزل الله تعالى في كتابه في زيد بن حارثة ما أنزل فقال ((ادعوهم لآبائهم هو أقسط عند الله فإن لم تعلموا آباءهم فإخوانكم في الدين ومواليكم)) رد كل واحد من أولئك إلى أبيه فإن لم يعلم أبوه رد إلى مولاه.

ترجمہ: حضرت عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ابو حذیفہ بن عتبہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ ﷺ کے اصحاب میں سے تھے اور جنگ بدر میں شریک ہوئے تھے، انہوں نے حضرت سالم کو اپنا منہ بولا بیٹا بنایا تھا جیسے رسول اللہ ﷺ نے حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کو اپنا منہ بولا بیٹا بنایا تھا اور انہوں نے حضرت سالم کو اپنا بیٹا سمجھتے ہوئے ان کا نکاح اپنی بھتیجی حضرت فاطمہ بنت ولید سے کر دیا تھا، پس جب حضرت زید رضی اللہ عنہ کے بارے میں قرآن مجید میں یہ حکم نازل ہوا کہ  ((ادعوهم لآبائهم هو أقسط عند الله فإن لم تعلموا آباءهم فإخوانكم في الدين ومواليكم)) تو ہر متبنی بیٹے کو ان کے حقیقی بات کی طرف لوٹا دیا گیا اور جن کے باپ کا علم نہ تھا ان کے آقا کی طرف لوٹا دیا گیا۔

(آقا کی طرف لوٹانے کا یہ مطلب نہیں کہ ان کی ولدیت میں آقا کا نام بولا جاتا تھا بلکہ مطلب یہ ہے کہ آقا کی طرف ان کی نسبت لفظ ’’مولیٰ‘‘ کے ذریعہ کی جاتی تھی مثلاً پہلے  ’’سالم‘‘ کو ’’سالم بن ابی حذیفہ‘‘ کہا جاتا تھا تو آیت کے نزول کے بعد ’’سالم مولیٰ ابی حذیفہ‘‘ کہا جاتا تھا)۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved