• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

ذاتی سرمایہ سے خریدی ہوئی اشیاء میں دوسرے ورثاء کا حق

استفتاء

1۔ والد صاحب کی وراثت میں دکان ہے، جہاں لوہے کا کام ہوتا ہے۔ 20 سالوں سے سب بھائی کام کرتے رہے ہیں۔ 8 بھائی اور تین بہنیں ہیں۔ والدہ بھی حیات ہیں۔ آہستہ آہستہ سب بھائی دکان چھوڑ گئے ہیں، اپنی مرضی سے الگ کاروبار کر لیا ہے، آخر میں 2 بھائی رہ گئے ہیں۔ کیا ان کی کمائی میں باقی سب کا حق ہے؟

2۔ یہ جاننے کے بعد کہ اس دکان کی کمائی میں سب کا حق ہے، میرے میاں جی نے الگ کاروبار کرنے کا فیصلہ کیا ہے، لیکن اتنی گنجائش نہیں ہے کہ سب اوزار خود بنائیں دوبارہ، پہلی دکان میں جو اوزار خود محنت کر کے کما کر بنائے ہیں کیا وہ والدہ سے اجازت لے کر لے سکتے ہیں؟ مالک بن سکتے ہیں؟ اگر مالک نہیں بن سکتے تو دکان کے بک جانے تک عاریتاً لے کر استعمال کر سکتے ہیں؟

وضاحت مطلوب ہے: 1۔ والد صاحب کا انتقال کب ہوا؟

2۔ کیا سارے بھائیوں کا والد صاحب کے کاروبار کے بارے میں آپس میں کوئی معاہدہ طے ہوا تھا؟

3۔ جن بھائیوں نے الگ کاروبار کیا وہ اس کے لیے سرمایہ کہاں سے لائے؟ کیا والد صاحب کے کاروبار سے یا علیحدہ اپنے پاس سے؟

جواب وضاحت: 1۔ والد صاحب کا انتقال 1994ء میں ہوا۔

بڑے بھائی نے کاروبار نہیں سنبھالا، وہ سعودیہ چلے گئے سب چھوڑ کر، دوسرے نمبر والے بھائی نے بھی نہیں سنبھالا، تیسرے بھائی نے سنبھالا۔ 15 سال بعد لڑائی ہو گئی، وہ بھی دکان چھوڑ کر چلے گئے، سب اوزار ہرچیز لے گئے وہاں سے، پھر میرے خاوند صاحب کے پاس دکان آئی، اس حال میں تھی کہ کوئی چیز وہاں نہیں تھی، خالی جگہ تھی، لوگوں سے اوزار ادھار مانگ کر کام شروع کیا، اللہ پاک نے برکت ڈالی، پھر انہوں نے اپنے اوزار خرید لیے۔

2۔ سب بھائیوں کی رضامندی یہی تھی کہ چھوٹے بھائی کام کرتے رہیں، اور والدہ کو سنبھالتے رہیں، خود کما کے اپنی شادیاں کر لیں، بڑے بھائی دکان بھی چھوڑ گئے اور گھر کی ذمہ داری بھی۔

3۔ دو بھائی باہر چلے گئے نوکری کرنے، ایک بھائی نے لڑائی کے بعد دکان کرائے پر لے کر دکان کے سرمایہ سے ہی کاروبار شروع کیا، چوتھے اور پانچویں بھائی نے اپنے پیسوں سے کاروبار کیا، چھٹے بھائی ابھی بھی دکان پر ہی کام کرتا ہے، ساتواں میرے خاوند صاحب ہیں، جنہوں نے میرے والدین کی طرف سے ملے ہوئے زیورات بیچ کر نئی دکان شروع کی ہے، لیکن ابھی بھی اتنی گنجائش نہیں کہ سب کچھ خود خرید سکیں، بس کچھ چند ایک چیزیں ہیں، جو پرانی دکان سے لینا چاہتے ہیں۔، آٹھواں بھائی بھی باہر چلا گیا ہے۔

مزید وضاحت درکار ہے: 1۔ اپنے کاروبار کی تفصیل لکھیں۔ کیا وہاں لوہے کی خرید و فروخت ہوتی ہے؟

2۔ والد صاحب کے انتقال کے وقت یا جو بھائی لڑائی کے بعد علیحدہ ہو گیا تھا اس وقت دکان پر کوئی پرانا لین دین باقی تھا یا نہیں؟ اگر تھا تو کس نے کیا؟ اس کی تفصیل لکھیں۔

3۔ کیا آپ کو کسی عالم نے بتایا ہے کہ آخری دو بھائیوں کی کمائی میں سب کا حق ہے؟ اگر انہوں نے کوئی تحریر دی ہے تو ساتھ بھیجیں۔

جواب وضاحت: 1۔ لوہنے کی چیزیں بناتے ہیں مثلاً گرل، دروازے، چوکھٹ، چار پائی وغیرہ، بڑے بھائی ٹرالے وغیرہ بناتے ہیں۔

2۔ نہیں، ایسا کوئی لین دین باقی نہیں تھا۔

3۔ پہلے تو سب کہتے تھے کہ ہماری طرف سے اجازت ہے دکان پر کام کرتے رہیں، والدہ کو بھی سنبھال لیں اور گھر بھی اور اپنی شادیاں کر لیں، اب یہ مسئلہ کھڑا کر دیا ہے کہ مفتی صاحب کہتے ہیں کہ سب کا حق ہے، کوئی تحریری فتویٰ نہیں لیا۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

1۔ مذکورہ صورت میں وہ کمائی صرف ان دو بھائیوں کی ہے جنہوں نے محنت کی ہے، سب بہن بھائیوں کا اس میں حق نہیں ہے۔

توجیہ: سب بہن بھائیوں کا حق اس وقت ہوتا ہے جب والد کے سرمایہ میں محنت کر کے اسے بڑھایا جائے، جب سرمایہ والد کا نہ ہو بلکہ ان کی صرف دکان ہو جیسے کہ آپ نے سوال میں ذکر کیا ہے تو دیگر بہن بھائیوں کا حق صرف دکان کی ملکیت میں ہے، کمائی میں نہیں ہے۔

2۔  اوزار جس نے خریدے ہیں، اسی کی ملکیت ہیں، پس اگر یہ اوزار آپ کے خاوند اور اس کے بھائی نے مل کر خریدے ہیں یا مشترکہ کمائی سے خریدے تو یہ دونوں کی ملکیت ہیں۔ اور اگر ان میں سے کسی ایک نے اپنی ذاتی رقم سے خریدے تو وہ اسی کے ہیں۔ اوزار کے مشترکہ ہونے کی صورت میں یا بھائی کی ملکیت ہونے کی صورت میں انہیں استعمال کرنے کے لیے بھائی سے اجازت لینا ضروری ہے۔

مطلب: فيما يقع كثيرا في الفلاحين ما صورته شركة مفاوضة تنبيه: يقع كثيرا في الفلاحين ونحوهم أن أحدهم يموت فتقوم أولاده على تركته بلا قسمة ويعملون فيها من حرث وزراعة وبيع وشراء واستدانة ونحو ذلك، وتارة يكون كبيرهم هو الذي يتولى، مهماتهم ويعملون عنده بأمره، وكل ذلك على وجه الاطلاق والتفويض، لكن بلا تصريح بلفظ المفاوضة ولا بيان جميع مقتضياتها مع كون التركة أغلبها أو كلها عروض لا تصح فيها شركة العقد، ولا شك أن هذه ليست شركة مفاوضة، خلافا لما أفتى به في زماننا من لا خبرة له، بل هي شركة ملك كما حررته في تنقيح الحامدية.ثم رأيت التصريح به بعينه في فتاوى الحانوتي، فإذا كان سعيهم واحدا ولم يتميز ما حصله كل واحد منهم بعمله يكون ما جمعوه مشتركا بينهم بالسوية، وإن اختلفوا في العمل والرأي كثرة وصواباً. رد المحتار: 4/ 499……………………… فقط و الله تعالى أعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved