• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

دوسری اولاد کی موجودگی میں نواسی کا اپنے نانا کی میرایث میں حصہ اور میراث کی تقسیم کی قسمیں

استفتاء

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلے کےبارے میں کہ مہ نور حامد اپنے والدین عفیرہ حامد اورڈاکٹر حامد علی کی اکلوتی اولاد ہے ۔مہ نور کے والدین کی   آپس میں 20 سال قبل علیحدگی ہوگئی تھی۔مہ نور کی والدہ عفیر ہ حامد نے اس کی اکیلے ہی پرورش کی ہے اور اپنی زندگی میں مہ نور نے اپنے والد سے کچھ لیا اور نہ ہی اس کے والد نے اسے کچھ دیا ۔اب مہ نور کے نانا کی وراثت اور اس کی والدہ کی ایک کنال زمین میں مہ نور کا شریعت کی رو سے کیا حصہ بنتا ہے ؟

آپ سے یہ پوچھنا ہے کہ

  1. کیا نانا کی وراثت میں مہ نور کا حصہ ہوگا؟
  2. کیانانا کی وراثت میں سے مہ نور کو ملنے والے حصے میں اس کاوالد شریک ہوگا؟
  • عفیر ہ حامد جو کہ مہ نور کی والد ہ ہے کیا مہ نور اس کی اکیلی وارث بنے گی ؟

وضاحت: مہ نور کی والدہ کے  چار بھائی ہیں  ان میں دو زندہ ہیں اور دو فوت ہوئے ہیں اوردو بہنیں ہیں جن میں ایک زندہ ہے اور ایک وفات پا گئی ہے ۔جبکہ مہ نور کی والد ہ عفیرہ حامد بھی حیات ہے ۔ مہ نور کےوالد کی دوسری شادی سے ایک لڑکی دو لڑکے ہیں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

  • مذکورہ صورت میں مہ نور کو اپنے نانا کی وراثت میں کوئی حصہ نہیں ملے گا ۔کیونکہ نانا کی اولاد موجود ہے اور اولاد کی موجودگی میں نواسی کو حصہ نہیں ملتا ۔
  • مہ نور کی وفات پر اگر والد حیات ہوں تو مہ نورکی میراث میں والد کا حصہ ہوگا خواہ وہ مال مہ نور کی ملکیت میں کسی بھی طریقہ سے آیا ہو۔
  • مہ نور کو اپنی والدہ کی میر اث والدہ کی وفات پر ہی ملےگی اور والدہ کی وفات کے وقت اگروالدہ کے بہن،بھائی یا کوئی اور وارث موجود ہو اتو اس وقت میر اث میں ان کو بھی شریعت کے مطابق حصہ ملے گا۔صرف اکیلی مہ نور وارث نہ ہوگی اور اگر کوئی اور وارث نہ ہوا تو اکیلی مہ نور وارث بنے گی۔

چنانچہ شامی میں 791/6 میں ہے

(هو كل قريب ليس بذي سهم ولاعصبة) فهو قسم ثالث حينئذ (ولا يرث مع ذي سهم ولا عصبة سوى الزوجين) لعدم الردعليهما (فيأخذالمنفردجميع المال بالقرابةويحجب أقربهم       الأبعد)كترتيب العصبات۔

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved