• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

(۱)زندگی میں میراث تقسیم کرنا(۲)میراث کی تقسیم کی صورت

استفتاء

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

اپنی زندگی میں کس طرح تقسیم کرے اور مرنے کے بعد کس طرح رقبہ 56کنال گھر کی جگہ آٹھ مرلہ ۔

مالک کانام عمر حیات ،ورثاء میں بیوی (جو کہ فوت ہو گئی )بیٹیاں دو حیات ہیں،بہنیں دو ہیں فوت ہو چکی ہیں ،بھائی دو ہیں د ایک ان میں سے ایک فوت چکاہے۔برائی مہربانی راہنمائی فرمائیں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

۱۔ زندگی میں آپ اپنی جائیداد کو اس طرح تقسیم کرسکتے ہیں کہ کل جائیداد میں سے یا اپنے لیے کچھ رکھنا چاہیں تو باقی میں سے ایک ایک حصہ ہر بیٹی کو دیدیں اور ایک اپنے بھائی کو دیدیں اور اس کی بھی گنجائش ہے کہ کل جائیداد یا اپنے لیے کچھ رکھنے کے بعد باقی کل جائیداد صرف اپنی بیٹیوں کو آدھی آدھی دیدیں اور اپنے بھائی کو کچھ نہ دیں۔بشرطیکہ ایسا کرنے سے بھائی کو محروم کرنا مقصود نہ ہو اور بھائی کو اس پر اعتراض نہ ہو۔

۲۔ مرنے کے بعد آپ کی جائیداد کی تقسیم (بشرطیکہ ورثاء وہی ہوں جو فی الحال ہیں )اس طرح ہو گی کہ ایک ایک حصہ آپ کی بیٹی کو ملے گا اور ایک حصہ آپ کے بھائی کو ملے گا۔

 وَعَنْ أَنَس رَضِي اللَّه عَنْه قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّه – صَلَّي اللَّه عَلَيه وَسَلَّمَ -: مَنْ قَطَعَ مِيرَاثَ وَارِثِه، قَطَعَ اللَّه مِيرَاثَه مِنَ الْجَنَّة يوْمَ الْقِيامَة . رَوَاه ابْنُ مَاجَه.

مرقاة المفاتيح شرح مشکاة المصابيح (5/ 2040)

(يوْمَ الْقِيامَة) قَالَ الطِّيبِي – رَحِمَه اللَّه -: تَخْصِيصُ ذِکْرِ الْقِيامَة وَقَطْعِه مِيرَاثِ الْجَنَّة لِلدَّلَالَة عَلَي مَزِيدِ الْخَيبَة وَالْخُسْرَانِ، وَوَجْه الْمُنَاسِبَة أَنَّ الْوَارِثَ کَمَا انْتَظَرَ فَتَرَقَّبَ وُصُولَ الْمِيرَاثِ مِنْ مُورِثِه فِي الْعَاقِبَة فَقَطَعَه کَذَلِکَ يخَيبُ اللَّه تَعَالَي آمَالَه عِنْدَ الْوُصُولِ إِلَيها وَالْفَوْزِ بِها اه.

التنوير شرح الجامع الصغير (10/ 328)

"من فر من ميراث وارثه قطع الله ميراثه من الجنة يوم القيامة. (هـ) عن أنس”.

(من فر من ميراث وارثه) بأن فعل من الوصايا ما يفوت به إرثه ويقطعه عليه.

وَعَنْ أَبِي هرَيرَة عَنْ رَسُولِ اللَّه صَلَّي اللَّه عَلَيه وَسَلَّمَ قَالَ: إِنَّ الرَّجُلَ لَيعْمَلُ وَالْمَرْأَة بِطَاعَة اللَّه سِتِّينَ سَنَة ثُمَّ يحْضُرُهمَا الْمَوْتُ فَيضَارَّانِ فِي الْوَصِية فَتَجِبُ -(926)- لَهمَا النَّارُ ثُمَّ قَرَأَ أَبُو هرَيرَة (مِنْ بَعْدِ وَصِية يوصَي بِها أَوْ دَينٍ غير مضار)

إِلَي قَوْله (وَذَلِکَ الْفَوْز الْعَظِيم

رَوَاه أَحْمَدُ وَالتِّرْمِذِي وَأَبُو دَاوُدَ وَابْنُ مَاجَه

مرقاة المفاتيح شرح مشکاة المصابيح (5/ 2039)

( فَيضَارَّانِ فِي الْوَصِية ) مِنَ الْمُضَارَّة أَي: يوصِلَانِ الضَّرَرَ إِلَي الْوَارِثِ بِسَبَبِ الْوَصِية لِلْأَجْنَبِي بِأَکْثَرَ مِنَ الثُّلُثِ، أَوْ بِأَنْ يهبَ جَمِيعَ مَالِه لِوَاحِدٍ مِنَ الْوَرَثَة کَيلَا يرِثَ وَارِثٌ آخَرُ مِنْ مَالِه شَيئًا، فَهذَا مَکْرُوه وَفِرَارٌ عَنْ حُکْمِ اللَّه تَعَالَي، ذَکَرَه ابْنُ الْمَلَکِ، وَفِيه: أَنَّه لَا يحْصُلُ بِهمَا ضَرَرٌ لِأَحَدٍ، اللَّهمَّ إِلَّا أَنْ يقَالَ مَعْنَاه فَيقْصِدَانِ الضَّرَرَ، وَقَالَ بَعْضُهمْ: کَانَ يوصِي لِغَيرِ أَهلِ الْوَصِية أَوْ يوصِي بِعَدَمِ إِمْضَاء ِ مَا أَوْصَي بِه حَقًّا بِأَنْ نَدَمَ مِنْ وَصِيتِه أَوْ ينْقُضُ بَعْضَ الْوَصِية ( فَتَجِبُ لَهمَا النَّارُ ) أَي: ذَهبَتْ وَالْمَعْنَي يسْتَحِقَّانِ الْعُقُوبَة، وَلَکِنَّهمَا تَحْتَ الْمَشِيئَة

فيضاران في الوصية، فتجب لهما النار”؛ يعني: ربما يعمل الرجل والمرأة ستين سنة أو أکثر بالأعمال الصالحة، ثم يوصي عند الموت وصية باطلة، بأن يوصي للوارث، أو يوصي لأجنبي بأکثر من الثلث، فيأثم بهذه الوصية؛ لأن مخالفة رسول الله – صلي الله عليه وسلم – إثمٌ موجب للعقاب، فبعض الناس يوصي بهذه الوصايا الباطلة وهي إثم، وبعضهم يبيع أو يهب جميع ماله لواحد من ورثته، کيلا يرث وارث آخر من ماله شيئًا، ولا يرث بيت المال ما بقي من صاحب فرض، فهذا کلُّه مکروه وفرارٌ من حکم الله، بل الأولي بالتقوي أن يوصي بما قَسَم الله المال بين الورثة

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved