• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

جس جگہ جمعہ کی شرائط پائی جاتی ہوں وہاں مسافروں کا ظہر کی جماعت کروانے کاحکم

استفتاء

سوال:  ہم بذریعہ ٹرین   لاہور سے کراچی سفر کر رہے تھے ۔ جس دوران جمعہ کی نماز کا  وقت داخل ہوا،ٹرین روہڑی  ریلوے سٹیشن پر  رکی ۔ شہر میں جمعہ کی پہلی اذان کی آوازیں  گونج رہی تھیں۔ چونکہ ٹرین کے رکنے کا وقفہ   صرف ۲۰ منٹ تھا اور  ریلوے سٹیشن سے باہر جا کر کسی مقامی مسجد میں جا کر  جمعہ کی نماز میں شرکت ممکن نہ تھی کہ اس صورت میں ہماری ٹرین چھوٹ   جاتی، اس لئے ہم ساتھیوں نےپلیٹ فارم  کے مصلیٰ پر ظہر کی نماز  جماعت  سے پڑھ لی ۔ علماء سے سنا تھا کہ دوران سفر مسافر پر جمعہ  فرض نہیں ،اس لئے جمعہ  کے بجائے ظہر کی  نماز جماعت سے پڑهی۔پوچھنا  یہ ہے کہ(۱)کیا   ہمارا   یہ عمل درست تها ؟(۲)یا پھر ہمیں ظہر کی نماز  کی جماعت نہیں  کرانی چاہئے تھی  بلکہ انفرادی طور پر ادا کرنی چاہیے تھی؟(۳)نیز اگر ایسا کرنا درست نہیں  تھا  تو اس نماز کو لوٹانا ضروری ہے ؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

جواب سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ جس شہر یا بستی میں جمعہ کی شرائط پائی جائیں وہاں جمعہ کے دن ظہر کی  نماز باجماعت  ادا کرنا مکروہ تحریمی اور منع ہے  خواہ امام اور مقتدی مسافر ہوں یا مقیم ، بیمار ہوں یا  تندرست ۔ نیز مسافر  کے لئے جمعہ کی امامت درست ہے اسی  طرح نماز جمعہ میں اقتداء کرنا بھی جائز ہے۔مذکورہ صورت میں روہڑی شہر ہے اور وہاں  جمعہ کے وجوب کی شرائط پائی جاتی ہیں  ،(1) اس لئے آپ حضرات کا عمل یعنی   جمعہ کے دن ظہر کی جماعت کرانا درست نہیں تھا،بلکہ مکروہ تحریمی تھا۔(2)آپ کو ظہر کی نماز کی جماعت نہیں کرانی چاہیے بلکہ انفرادی پڑھنی ضروری تھی ۔ البتہ آپ اپنی جمعے کی جماعت کرواسکتے تھے۔ (3)مذکورہ صورت میں چونکہ کراہت کا تعلق نماز کے ارکان واجزاء میں کمی بیشی کے ساتھ نہیں ہے بلکہ ایک امر خارجی سے ہے اس لیے اس نماز کو لوٹانے کی ضرورت نہیں ،صرف اپنے عمل پر توبہ استغفار کرلینا کافی ہے۔

في مراقي الفلاح، جزء 1، صفحة 214

( وكره للمعذور ) كمريض ورقيق ومسافر ( والمسجون أداء الظهر بجماعة في المصر يومها ) أي الجمعة يروى ذلك عن علي رضي الله عنه ويستحب له تأخير الظهر عن الجمعة فإنه يكره له صلاتها منفردا قبل الجمعة في الصحيح

في حاشية الطحطاوي علي مراقي الفلاح، جزء 1، صفحة 338

قوله ( أداء الظهر بجماعة ) سواء كان قبل الجمعة أو بعدها وإنما قيد بالمعذور ليعلم حكم غيره بالأولى ووجه الكراهة أنها تفضي إلى تقليل جماعة الجمعة لأنه ربما تطرق غير المعذور للاقتداء بالمعذور ولأن فيه صورة المعارضة بإقامة غيرها

و في ردالمحتار علي الدرالمختار، الجزء الثالث، صفحة 36

قال في الدرالمختار۔۔(وكره) تحريما (لمعذور ومسجون) ومسافر (أداء ظهر بجماعة في مصر) قبل الجمعة وبعدها لتقليل الجماعة وصورة المعارضةقال في ردالمحتار علي الدرالمختار( قوله لتقليل الجماعة ) لأن المعذور قد يقتدي به غيره فيؤدي إلى تركها بحر وكذا إذا علم أنه يصلي بعدها بجماعة ربما يتركها ليصلي معه فافهم ( قوله وصورة المعارضة ) لأن شعار المسلمين في هذا اليوم صلاة الجمعة وقصد المعارضة لهم يؤدي إلى أمر عظيم فكان في صورتها كراهة التحريم۔ رحمتي ۔

في ردالمحتار علي الدرالمختار، الجزء الثالث، صفحة: 33)

( ويصلح للإمامة فيها من صلح لغيرها فجازت لمسافر وعبد ومريض وتنعقد)الجمعة ( بهم ) أي بحضورهم بالطريق الأولى۔ في ردالمحتار علي الدرالمختار، الجزء الثاني ، صفحة 182، 183)

قال في الدرالمختار۔۔ وكذا كل صلاة أديت مع كراهة التحريم تجب إعادتها. والمختار أنه جابر للاول.قال في ردالمحتار علي الدرالمختار "مطلب صلاة أديت مع كراهة التحريم تجب إعادتها” قوله (وكذا  كل صلاة الخ ) ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  إلا أن يدعي تخصيصها بأن مرادهم بالواجب والسنة التي تعاد بتركه ما كان من ماهية الصلاة وأجزائها فلا يشمل الجماعة لأنها وصف لها خارج عن ماهيتها أو يدعي تقييد قولهم يتم ويقتدي متطوعا بما إذا كانت صلاته منفردا لعذر كعدم وجود الجماعة عند شروعه فلا تكون صلاته منفردا مكروهة والأقرب الأول ولذا لم يذكروا الجماعة من جملة واجبات الصلاة لأنها واجب مستقل بنفسه خارج عن ماهية الصلاة ۔

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved