• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

زندگی میں وراثت کی تقسیم

استفتاء

ایک مسئلہ کی بابت دریافت کرنا تھا کہ:

1۔ کیا والد اپنی زندگی میں اپنی جائیداد اپنے بچوں میں تقسیم کرسکتا ہے؟

2۔اگر شریعت میں گنجائش ہے تو افضل تقسیم کیا ہوگی،نیز بیٹی اور بیٹے کا حصہ کس حساب سے ہوگا؟

3۔ اس طرح اگر والد تقسیم نہ کرے اور اولاد میں فتنہ کا اندیشہ ہو تو پھر اس کی کیا حیثیت ہوگی؟

مہربانی فرماکر قرآن وحدیث کی روشنی میں وضاحت فرمادیں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

1۔کرسکتا ہے۔

2۔افضل اور بہتر یہ ہے کہ لڑکا اور لڑکی دونوں کو برابر حصہ دے، تاہم بیٹے کو دو حصے اور بیٹی کو ایک حصہ دے تو یہ بھی جائز ہے۔

3۔زندگی میں والد اپنی جائیداد کاخود مالک ہوتا ہے،اس میں کسی کا  از روئے وراثت کوئی حق نہیں ہوتا،اس لئے والد اگر زندگی میں اپنی جائیداد تقسیم نہ کرے تو وہ گناہ گار نہیں ہوگا۔

رد المختار(583/8،ط:رشیدیہ) میں ہے:

وفي الخانية لا بأس بتفضيل بعض الأولاد في المحبة لأنها عمل القلب، وكذا في العطايا إن لم يقصد به الإضرار، وإن قصده فسوى بينهم يعطي البنت كالابن عند الثاني وعليه الفتوى

لسان الحکام (ص:371) میں ہے:

الأفضل في هبة الابن والبنت ‌التثليث ‌كالميراث وعند أبي يوسف رحمه الله تعالى التنصيف وهو المختار

مسائل بہشتی زیور(336/2،ط:نشریات اسلام) میں ہے:

مسئلہ: بعض لوگ چاہتے ہیں کہ اپنی وفات سے پہلے اپنی زندگی میں اپنی تمام جائیداد اولاد میں خود تقسیم کردیں ایسا کرنا جائز ہے اور اگرچہ اس کی گنجائش ہے کہ لڑکے کو لڑکی کے مقابلہ میں دو گنادیں لیکن چونکہ یہ ہبہ ہے میراث نہیں لہٰذا بہتر و مستحب یہی ہے کہ دونوں کو برابر برابر دیں ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved