• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

(1)بہنوں کی مالی معاونت کرنے کو وراثت سے منہا کرنے کا حکم (2) مشترکہ مکان کی تعمیر کا خرچہ لینا

استفتاء

ہمارے والد صاحب کا تین مرلہ کا پرانا گھر تھا ،1984 میں والد صاحب کی زندگی میں تین بھائیوں نے مل کر اس کو نیا بنایا ۔ ہم کل پانچ بھائی تھے. دو کے اتنے حالات نہیں تھے کہ وہ خرچہ کرتے اس لیے انہوں نے اس پر کوئی خرچہ نہیں کیا ابھی وہی دونوں بھائی اس گھر میں رہائش پذیرہیں ۔ 1993 میں والد صاحب کا انتقال ہو گیا ۔ ہم پانچ بھائی تھے اور ہماری چار بہنیں تھیں۔ ہماری والدہ والد صاحب سے پہلے ہی انتقال کر گئی تھی۔ والد صاحب کے بعد ہماری ایک بہن سب سے پہلے فوت ہوئی اس نے ورثاء میں شوہر اور دو بیٹے چھوڑے ،اس کے بعد ایک اور بہن فوت ہوئی اس نے بھی ورثاء میں شوہر اور دو بیٹے چھوڑے ،اس کے بعد ایک اور بہن فوت ہوئی اس نے ورثاء میں شوہر ،ایک بیٹا اور ایک بیٹی چھوڑی ،اس کے بعد ایک بھائی (**) کا انتقال 2002 میں ہوا ۔ان کی وفات کے وقت ورثاء میں بیوی اور ایک بیٹا تھا ،پھر کچھ عرصہ بعد ان کی بیوی کا بھی انتقال ہو گیا ،بیوی کے والدین پہلے فوت ہو چکے تھے وارث صرف ایک بیٹا تھا۔ بھائی ** نے اپنے خرچہ سے والد صاحب کی وفات کے بعد ایک کمرہ بھی تعمیر کروایا تھا جس کا خرچہ ان کا بیٹا لینا چاہتا ہے جبکہ دیگر بھائیوں نے جو تعمیر کی وہ اس کا خرچہ نہیں لینا چاہتے۔اس تفصیل کے بعد جواب طلب امور یہ ہیں کہ :

(1) جو ورثاء موجود ہیں صرف ان کو ہی حصہ ملے گا یا جو وفات پا چکے ہیں انکی اولاد کو بھی ملے گا ؟

(2) ایک بھائی جو ابھی رہائش پذیر ہے وہ چاہتا ہے کہ وہ یہ گھر لے لے اور سب ورثاء کو پیسے دے دے اس صورت میں ورثاء کے حصے کتنے کتنے بنیں گے ؟

(3)بعض بھائیوں کا کہنا ہے کہ ہم بہنوں کو سپورٹ کرتے رہے ،ان کے گھر کی تعمیر میں سیمنٹ وغیرہ بھی لے کر دیا (لیکن اس وقت وراثت سے کٹوتی کی کوئی بات نہ ہوئی تھی ) لہذا بہنوں کا حصہ نہیں بنتا ۔ کیا یہ بات درست ہے ؟

(4)بہنوں کو جو سپورٹ کیا وہ خرچہ منہا ہو گا ؟

(5)بھائی **کا بیٹا اس کمرہ کی تعمیر کا خرچہ لینا چاہتا ہے جو اس کے والد صاحب نے اپنے والد صاحب کی وفات کے بعد ورثاء کی اجازت سے اپنی ضرورت کے لیے بنایا تھا ۔ کیا وہ اس کا خرچ لے سکتا ہے ؟

نوٹ: سب بھائی  مذکورہ سوال پر متفق ہیں  لیکن بھائی  **کا کہنا ہے کہ چونکہ بہنوں کو ہم نے سپورٹ کیا ہے اس لیے ان کا حصہ نہیں بنتا ۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

(1 )جو ورثاء موجود ہیں ان کو بھی حصہ ملے گا اور جو وفات پا چکے ہیں  ان کی اولاد کو بھی حصہ ملے گا ۔

(2) اگر سب ورثاء اس بات پر راضی ہوں کہ گھر ایک بھائی لے لے تو اس صورت میں بھائی  نواز نے جو کمرہ بنایا تھا اس کے علاوہ گھر کی قیمت لگوائی جائے گی پھر اس قیمت کے 112 حصے کیے جائیں گے ۔ جن میں سے 16,16 حصے (14.285 فیصد)ہر بھائی کو  ، 8 حصے (7.142فیصد)جو بہن حیات ہیں اس کو ،2 حصے (1.785فیصد)سب سے پہلے فوت ہونے والی بہن کے شوہر کو، 3,3 حصے(2.678 فیصد) ان کے دونوں بیٹوں کو، 2 حصے (1.785فیصد) دوسرے نمبر پر فوت ہونے والی بہن کے شوہر کو، اور 3,3 حصے (2.678 فیصد) ان کے دونوں بیٹوں کو، 2 حصے (1.785فیصد)تیسرے نمبر پر فوت ہونے والی بہن کے شوہر کو، 4 حصے (3.571فیصد )ان کے بیٹے کو، 2 حصے (1.785 فیصد)ان کی بیٹی کو ،اور 16 حصے (14.285 فیصد )نواز صاحب کے بیٹے کو ملیں گے۔

(3،4) بہنوں کو سپورٹ کرتے وقت چونکہ آپ کی نیت ان سے یہ رقم واپس لینے کی نہ تھی اور نہ ہی ایسا کوئی معاہدہ ہوا تھا بلکہ آپ نے بطور بھائی نیکی اور احسان والا معاملہ کیا تھا جس کا اجر ان شاء اللہ تعالی، اللہ تعالیٰ  سے آپ کو ملے گا لہذا ان کے حصے سے یہ رقم نہیں کاٹی جائے گی ۔ ابھی بھی  ان کا حصہ اس وراثت میں ہو گا ۔

(5)لے سکتا ہے جس کا طریقہ یہ ہے کہ مکان کی دو قیمتیں لگوائی جائیں گی ایک اس کمرہ سمیت اور ایک اس کمرہ کے بغیر ، دونوں قیمتوں کا درمیانی فرق کمرہ کی قیمت شمار ہوگا جو بھائی نواز کے بیٹے اور بھائی نواز کے دیگر ورثاء کا حق ہوگا۔

تنقیح الفتاویٰ الحامدیہ (2/391) میں ہے:

المتبرع لايرجع بما تبرع به على غيره كما لو قضى دين غيره بغير امره

درر الحكام شرح مجلۃ الأحكام (المادة:  1309)میں ہے:

 إذاعمرأحدالشريكين المال المشترك بإذن الشريك الآخرأي أن تكون التعميرات الواقعة للمعمر وملكا له فتكون التعميرات المذكورة ملكا للمعمر ويكون الشريك الآخر قد أعار حصته لشريكه.

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved